ملک بھر کے بیشتر اسپتالوں میں متعدی بیماریوں سے نمٹنے کے لئے حفاظتی سازوسامان اور بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے، ماہرین

446

کراچی(اسٹاف رپورٹر)ڈاکٹروں اور طبی عملے نے وائرل انفیکشن کے علاج کے بنیادی ڈھانچے پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ سوائے چند شہری اسپتالوں کے، ملک کے بیشتر سرکاری اسپتالوں میں متعدی بیماریوں سے نمٹنے کے لئے حفاظتی سازوسامان اور بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے،

طبی عملے کا کہنا ہے اس میں بہت بنیادی چیزیں شامل ہیں جیسے دستانے اور ماسک جبکہ ملک کے دیہی علاقوں میں تقریباً تمام اور شہری علاقوں میں بیشتر سرکاری اسپتالوں میں بنیادی سہولتیں وائرل انفیکشن کی روک تھام کے لیے ناکافی ہیں،

چین میں کرونا وائرس کی وباء عالمی سطح پر پھیلنے کے خوف کے باعث سرکاری اسپتالوں کی تیاریوں کے حوالے سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔ماہرین کے مطابق اسپتالوں میں ضروری سامان و آلات کی موجودگی کے لیے ہنگامی حالات کا نفاذ کرنا چاہیے تاکہ کسی بھی وباء کے خدشات کا سدباب کیا جاسکے،

ایف ڈی کے اے مطابق خود کو محفوظ رکھنے کے سامان میں حفاظتی لباس، ہیلمٹ، دستانے، چہرے کا ماسک، خصوصی چشمے، سانس لینے میں مدد کے لیے ریسپائریٹرز، انفیکشن سے بچاؤ اور چوٹ سے محفوظ رکھنے کے لیے دیگر پہننے کی اشیاء شامل ہیں،

پرسنل پروٹیکٹو ایکوئپمنٹ (پی پی ای) عام طور پر صحت کی دیکھ بھال میں استعمال ہوتا ہے جیسے اسپتالوں، ڈاکٹروں کے دفاتر اور کلینیکل لیبز وغیرہ میں کیا جاتا ہے تاکہ متعدی مواد جیسے وائرل اور بیکٹیریل آلودگیوں اور جلد، منہ، ناک، یا آنکھوں کے درمیان رکاوٹ اور ان کا تحفظ کیا جاسکے،

یہ اشیاء خون، جسمانی رطوبتوں، یا سانس کی رطوبتوں سے آلودگی کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ پی پی ای ان مریضوں کی بھی حفاظت کرسکتا ہے جو جراحی کے طریقہ کار کے ذریعہ انفیکشن کا زیادہ خطرہ رکھتے ہیں،

اسی طرح مدافعتی نظام، عیادت کے لیے ملنے والے اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والوں کو متعدی امراض سے بچنے کے لئے ایک حفاظتی آڑ ہے۔ انفیکشن پر قابو پانے کے مناسب طریقوں میں جیسے ہاتھ دھونا، جراثیم کش اشیاء کا استعمال کرنا، اور کھانسی اور چھینک میں اقدام سے ایک فرد سے دوسرے میں انفیکشن کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد ملتی ہے،

تاہم، ان کے استعمال کے بعد دوسرے لوگوں کو انفیکشن سے بچانے کے لیے ان اشیاء کا صحیح طریقے سے ہٹانا اور تلف کرنا ضروری ہے۔اسی طرح، ان اشیاء کے ساتھ وائرسوں اور بیکٹیریا کی موجودگی کی پیمائش کے لئے آلات بھی سندھ کے بہت سارے کلیدی اسپتالوں میں نظر نہیں آتے ہیں،

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ڈریپ کے رجسٹریشن بورڈ میں پی پی ای تیار کرنے کے لئے مقامی کمپنیوں کی سیکڑوں درخواستیں زیر التوا ہیں۔ اس طرح ماہرین کی قلت اور اسپتالوں کو ان اشیاء کی فراہمی میں ڈریپ ایک رکاوٹ بن رہی ہے،

پاکستان میں صحت کی دیکھ بھال کی ناکافی سہولیات موجود ہیں، عام طور پر کسی مصنوعات کو رجسٹر کرنے میں تقریباً ڈھائی سال لگتے ہیں۔ کراچی میں حالیہ مہلک گیس کے واقعے جس میں 14 افراد ہلاک ہوئے تھے ان سے پتہ چلتا ہے کہ اسپتالوں میں مریضوں کے علاج کے لئے اتنی آکسیجن سپلائی نہیں ہے،

کسی بھی وائرل پھیلنے کی تیاریوں کا آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ صحت کے ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس پر غور کریں اور وائرل انفیکشن سے نمٹنے کے لئےضروری سامان اور انفراسٹرکچر مہیا کرنے میں تعاون فراہم کریں۔