عورت آزادی مارچ

810

 

 

پورے پاکستان میں 8 مارچ کو عورت آزادی مارچ کے لیے تیاریاں زور شور سے جاری ہیں۔ اس کے لیے خصوصی نغمہ لکھا گیا ہے جبکہ کئی ماہ سے ریہرسیل جاری ہے۔ اس کا ایک ٹیزر جنوری میں کراچی پریس کلب کے سامنے بھی پیش کیا گیا۔ عورت آزادی مارچ کے لیے سکھر، اسلام آباد، کوئٹہ، فیصل آباد، پشاور، لاہور اور کراچی میں پروگرامات کیے جائیں گے۔ گزشتہ عورت آزادی مارچ میں عوام کی حاضری تو نہ ہونے کے برابر تھی تاہم این جی اوز نے اپنے اسٹاف کی مکمل حاضری کے ساتھ اسے قابل ذکر بنانے کی کوشش کی تھی۔ نام تو عورت آزادی مارچ کا تھا تاہم حاضری کو قابل ذکر بنانے کے لیے اس میں مرد و زن کی تخصیص نہیں تھی۔
عورت آزادی مارچ گزشتہ دو برسوں سے ہورہا ہے تاہم گزشتہ عورت آزادی مارچ میں موجود پلے کارڈز پر لکھے گئے فحش انداز کے نعروں اور تصویروں نے ضرور توجہ اپنی طرف مبذول کروائی تھی۔ ہر برس 8 مارچ کو دنیا بھر میں محنت کش خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ تاہم عورت آزادی مارچ میں محنت کش خواتین کے مسائل کے سوا ہر مسئلہ پر بات کی گئی۔ عورت آزادی مارچ میں موجود ایک بھی پلے کارڈ محنت کش خواتین کے مسائل کے حوالے سے نہیں تھا۔ اس میں موجود بنیادی نعرہ پدر شاہی سے آزادی کا تھا۔ عورت آزادی مارچ کے منتظمین کے نزدیک اس کا مطلب مردوں کی برتری سے آزاد معاشرہ ہے۔ پدر شاہی سے آزادی کے نعرے سے منتظمین کی کیا مراد ہے، یہ جب کوئی پوچھے گا تو پتا چلے گا مگر اس نعرے کو دیکھ کر ہی اندازہ ہوتا ہے کہ منتظمین کا اصل ہدف خاندانی نظام ہے جس کی بنیاد باپ یا پدر ہے۔ باقی نعرے میرا جسم میری مرضی، کھانا خود گرم کرلو وغیرہ تو اس پدر شاہی سے آزادی کے بعد کے خود کار عمل ہیں۔
عورت مارچ پر گفتگو سے قبل ایک بنیادی نکتے کا اعادہ۔ کوئی بھی مظاہرہ یا تحریک ازخود نہیں منظم ہوجاتی۔ کسی بھی تحریک کے چلنے کا مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر سندھ کے عوام خاص طور سے شہری عوام صوبائی حکومت کے ظلم کا شکار ہیں اور انتہائی شاکی بھی مگر چونکہ گلی کوچے میں کوئی منظم کرنے والا نہیں ہے، اس لیے کسی بھی سطح پر اس کے خلاف کوئی تحریک نظر نہیں آئے گی۔ ہر تحریک کو منظم کرنے والے لوگ موجود ہوتے ہیں، چاہے وہ پس منظر میں ہوں یا پیش منظر پر۔ فرانس کی پیلی جیکٹ کی تحریک میں یہ ڈائریکٹر پس منظر میں ہیں جبکہ ہانگ کانگ کی جاری تحریک میں یہ پیش منظر پر نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں منظم کیے جانے والے عورت آزادی مارچ کے بھی منتظمین موجود ہیں۔ آج کے دور میں منتظمین سے زیادہ اہم ترین بات فنڈز فراہم کرنے والوں کی ہے۔ منتظمین عمومی طور پر تنخواہ دار ہوتے ہیں۔ ان کے لیے انگریزی لفظ منیجر زیادہ مناسب ہے۔ اصل ایجنڈا ان ہی کا ہوتا ہے جو فنڈز فراہم کرتے ہیں۔ اس لیے ان منتظمین کے ساتھ ساتھ اگر مذکورہ تحریک کو فنڈز فراہم کرنے والوں کے بارے میں جان لیں تو بہت ساری چیزیں سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔
یہ 8 مارچ 2018 کی بات ہے کہ اسلام آباد میں Women Democratic Front کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کے لیے پورے پاکستان سے نمائندہ وفود کو اسلام آباد بلایا گیا، ان کے سفری اخراجات کے علاوہ قیام و طعام کے بھاری اخراجات برداشت کیے گئے۔ یہی ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ ہی پیش منظر پر عورت آزادی مارچ کو پورے ملک میں منظم کرنے والی تنظیم ہے۔ دیکھنے میں تو پیش منظر پر یہی ایک تنظیم ہے مگر کھوج میں نکلیں تو اس کے ڈانڈے بہت ساری جگہوں سے ملتے ہیں یا پھر یوں کہہ سکتے ہیں کہ بہت سارے گروپ ہیں جو خاموشی سے اپنی اپنی جگہ پر کام کررہے ہیں تاکہ اگر کسی ایک گروپ پر زد پڑے تو دیگر گروپ محفوظ رہیں۔ ایسے ہی گروپوں میں شامل ہیں پروگریسو اسٹوڈنٹس کلیکٹو، حقوق خلق موومنٹ، پروگریسو اسٹوڈنٹس فیڈریشن، پروگریسو اکیڈمکس کلیکٹو، عورت حق، ریڈ بریگیڈ، عوامی مورچہ، انٹر یونیورسٹی فیمینسٹ یونین، فیڈریشن آف ہوم بیسڈ ویمن، عوامی ورکرز پارٹی سوشل میڈیا وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایک دائرے میں موجود تنظیمیں ہیں۔ ان تنظیموں کا دیگر دائروں میں موجود تنظیموں سے بھی قریبی تعلق ہوتا ہے اور ضرورت کے وقت سب ایک ساتھ بھی کھڑے نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک مثال پشتون تحفظ موومنٹ ہے جو دوسرے دائرے میں کام کرنے والی تنظیم ہے۔
ان تمام گروپوں کی اکثریت نے گزشتہ تین برسوں میں کام شروع کیا ہے۔ ایک دو گروپ 2014 سے بھی قائم ہیں۔ نام تو عورت کی مرد سے آزادی کا ہے مگر ان گروپوں کے عزائم کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آسیہ ملعونہ اور منظور پشتین کی حمایت میں ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ اور یہ دیگر تنظیمیں آگے آگے تھیں۔ ان تمام تنظیموں میں ایک بات اور بھی قدر مشترک ہے۔ وہ یہ کہ ان میں سے اکثر تنظیمیں اسلام آباد میں زیادہ متحرک ہیں اور وہیں پر ان کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ اسلام آباد کے علاوہ ان کا زور پنجاب کے دیگر شہروں پر بھی ہے جبکہ سندھ میں ابھی انہیں اتنا زیادہ متحرک نہیں کیا گیا ہے۔
محنت کش خواتین کے عالمی دن کے موقع پر محنت کش خواتین کی بات نہ کرنا خواتین کے ساتھ ہی ناانصافی ہے۔ یہ بات ضرور ماننے کی ہے کہ خواتین کے حقوق ان کے گھروں میں سلب نہیں کیے جارہے بلکہ کام کرنے کی جگہوں پر ہی انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔ تاہم ان تمام این جی اوز کا زور کہیں سے بھی خواتین کے حقوق پر نہیں ہے۔ اس کی ایک مثال سہون میں ایک سول جج کی سائلہ خاتون کے ساتھ اپنے چیمبر میں کی جانے والی زیادتی ہے۔ اس خوفناک واقعے پر خواتین کی ایک بھی تنظیم نے کوئی آواز بلند نہیں کی۔ ایک بات تو ثابت ہے کہ عورت آزادی مارچ کے منتظمین کا محنت کش خواتین کے حقوق سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی محنت کش خواتین کے مفادات کا تحفظ ان کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ یہ بات بھی ثابت ہے کہ عورت آزادی مارچ کے منتظمین کا خواتین کے حقوق یا ان پر کی جانے والی زیادتیوں سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ سہون کے سانحے پر ضرور متحرک ہوتیں۔ تو پھر عورت آزادی مارچ کے منتظمین چاہتے کیا ہیں۔ ان کے اہداف اور مقاصد کیا ہیں۔ اس سوال پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔