ہمارے ہاں ایک عام تاثر/ خیال یہ پایا جاتا ہے کہ ڈپریشن صرف بڑوں کا مرض ہے ۔ چنانچہ بچوں کوہر فکر سے آزاد ، انجان اور بے نیاز سمجھ کر ان کے رویے ، مزاج اور معمولات کی تبدیلی کو وقتی جان کر عموماً نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ خود ہی ٹھیک ہو جائے گا/گی
سوال یہ ہے کہ کیا بچے بھی ڈپریشن کا شکار ہوتے/ ہو سکتے ہیں؟
جی ہاں بالکل! بچے بھی ڈپریشن میں مبتلا ہوتے/ہو سکتے ہیں ، کیونکہ بڑوں ہی کی طرح بچے بھی سوچتے ، سمجھتے اور محسوس کرتے ہیں ۔ بڑوں ہی کی طرح مختلف باتیں ، رویے ، حالات ، واقعات ، حادثات اور سانحات پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں ۔ بچوں کا فطری لا اُبالی پن اپنی جگہ مگر وہ بھی جذبات و احساسات رکھتے ہیں ۔ بلکہ بڑوں کے بر عکس مختلف حالات و واقعات اور رویے بچوں پر زیادہ شدت سے اثر انداز ہوتے ہیں ۔ ان کا تجربہ و مشاہدہ کم ہوتا ہے لہٰذا اپنی عمر اور عقل و سمجھ کے مطابق جب چیزوں/ رویوں کو سمجھ نہیں پاتے ، معاملات کو کنٹرول نہیں کر سکتے تو جلد پریشان ، مایوس یا خوفزدہ ہو جاتے ہیں ۔ عمر کے مطابق ان کی اپنی فکریں پریشانیاں ، الجھنیں اور خدشات و مسائل ہوتے ہیں جن کا بر وقت اور مناسب تدارک نہ ہونے کی صورت میں بچہ/بچی ڈپریشن کا شکار ہو سکتا / ہو جاتا ہے ۔
آج سے20-25 سال قبل تک بچوں میں ڈپریشن نہ ہونے کے برابر تھا ۔ مگر آج کل مختلف عوامل و وجوہات کی بنا پر بچوں/بچیوں میں ڈپریشن بڑھتا جار ہا ہے ، ہمارے ہاں ایسے کوئی درست اعداد و شمار موجود نہیں ہیں جن سے اندازہ ہو سکے کہ ہر سال کتنے فیصد بچے پیدائشی طور پر ڈپریشن میں مبتلا ہوتے ہیںاور کتنے فیصد بعد کی زندگی میں مختلف عوامل و وجوہات کی بنا پر ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں؟ کتنے فیصد اسکول جانے کی عمر سے قبل اس مرض سے متاثر ہوتے ہیں؟ اور کتنے فیصد کو بلوغت کی عمر کو پہنچ کر ڈپریشن لا حق ہوتا ہے؟
گھریلو سطح پر ڈپریشن کے تدارک کی تجاویز:
کسی بھی بچے/بچی کو ڈپریشن سے نجات دلانے کے لیے معالج/ سائیکالوجسٹ اپنے طور پر جو کر سکتے ہیں کرتے ہیں مگر ان کی کوششیں اسی وقت فائدہ مند ہوتی ہیں جب گھریلو سطح پر بھی ان کی ہدایات پر عمل کیا جائے ، کیونکہ عموماً بچے/بچی میں ڈپریشن کا آغاز گھریلو ماحول اور افرادِ خانہ کے رویوں سے ہوتا ہے چنانچہ ضروری ہے کہ :
٭گھریلو ماحول پر سکون اور خوشگوار ہو ۔
٭ ہمارے ہاں عموماً مشترکہ خاندانی نظام کے باعث والدین کے علاوہ بھی دوسرے بہت سے افراد مثلاً دادا ، دادی ، پھوپھی ، چچا ، تایا وغیرہ مل جل کر رہتے ہیں کوشش کریں سب کے درمیان باہم عزت و احترام اور پار و محبت کا رشتہ ہو اور کسی اختلاف کی صورت میں بچوں کو اس سے دو رکھیں ۔
٭والدین آپس کے جھگڑوں میں بچوں کو استعمال نہ کریں ۔
٭ بچوں کے جذبات و احساسات کا احترام کریں ۔
٭ بحیثیت مسلمان مذہب ہماری زندگی کا لامی حصہ ہے کوشش کریں روز مرہ زندگی میں بچے تلاوتِ قرآن پاک اور پانچ وقت کی نماز کی پابندی کریں ۔
٭ بچوں کو گھر میں موجود بزرگوں کی خدمت کی عادت ضرور ڈالیں اس سے جہاں بزرگ خوش ہوتے ہیں وہیں خونی رشتوں کی خدمت سے دعائیں ملتی ہیں جوذہنی جسمانی اور جذباتی و روحانی تسکین کا باعث بنتی ہیں ۔ نیز بچوں کے اخلاق و کردار کی تریت و اصلاح اضافی فائدہ ہے ۔
٭بچون کو ہر روز کچھ وقت مثبت ، تعمیری اور صحت مند سرگرمیوں/ مشاغل میں ضرور گزارنا چاہیے۔
٭ بچوں کا والدین سے صرف احترام کا نہیں دوستی اور اعتماد کا رشتہ بھی ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی ہر پریشانی/تکلیف/اُلجھن/مشکل/مسئلہ/دل کی بات بلا تکلف کہہ سکیں ۔
٭ا پنے بچوں کے ساتھ کچھ وقت ضرور گزاریں ، کیونکہ بچے خواہ کسی بھی عمر کے ہوں اپنے والدین کی توجہ ، شفقت اور پیار ان کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی اور جذباتی تحفظ و تسکین کا باعث بنتا ہے ۔
٭ اگر بچے/بچی کو اسکول میں کوئی مسئلہ ہو تو اسے جھٹلانے کے بجائے توجہ اور سنجیدگی سے اس کی بات سنیں اور ٹیچر اور اسکول انتظامیہ کے ساتھ بات چیت کر کے اس مسئلے کو حل کروائیں۔ بچے/بچی کا سیکشن بھی تبدیل کرایا جا سکتا ہے اور بعض صورتوں میں اسکول بھی بدل سکتے ہیں ۔
٭ بچوں/بچیوں کے دوستوں ، سہیلیوں پر نظر رکھیں اور ان کی سرگرمیاں بھی آپ کے علم میں ہونی چاہیے ۔
٭ ہر طرح کے حادثات و سانحیات وغیرہ زندگی کا حصہ ہیں ۔ ہر بچے/بچی کا رد عمل ان حالات میں مختلف ہوتا ہے لیکن کوشش کریں کہ کسی بھی قسم کے تکلیف دہ لمحات اور جذباتی صدمات کی کیفیت میں بچے آپ کی شفقت و محبت کی پناہوں میں ہوں ۔
٭ کسی طویل جسمانی بیماری/معذوری کی صورت میں بچے/بچی کو زندگی کامثبت ، روشن اور خوبصورت رُخ دکھایے ، اس کے اندر ہمت ، حوصلہ اورخود اعتمادی پیدا کر کے اسے زندگی کی حقیقتوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بنائیں ۔