آزادی کی صبح ضرور طلوع ہوگی

426

 مقبوضہ کشمیر کے عمر عبداللہ کو مودی حکومت نے رہا کردیا۔ انہوں نے اپنی چند ماہ کی نظر بندی کے بعد اپنے والدین کے ساتھ کھانا کھایا اور اس کی تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے یاد نہیں پڑتا کہ اس سے بہتر کھانا کبھی کھایا ہو‘‘۔ کاش وہ ان تمام کشمیری نوجوانوں کو جو جیلوں میں ہیں اور وہ جو گھروں سے اُٹھا کر غائب کردیے گئے۔ ایسا ہی بہترین کھانا کھانے کا موقع فراہم کرنے کے لیے کوئی جدوجہد کریں۔ انہیں کچھ اندازہ تو ہوگیا ہے کہ گھر اور والدین سے دوری کیسی ہوتی ہے۔ اگرچہ انہوں نے یہ دوری اپنی پُرآسائش رہائش گاہ پر ہی گزاری ہے جو جیلوں اور اذیت خانوں کے مقابلے میں جنت ہی کہلائیں گے۔ کورونا وائرس سے قبل کشمیری مودی کے کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنے پر انتہائی ناراض تھے، تمام سیاسی رہنمائوں کو گرفتار کیا جاچکا تھا، پورے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ کردیا گیا تھا، آٹھ نو مہینے طویل کرفیو کو کورونا نے آکر اور زیادہ طویل بنادیا، تاہم کورونا نے فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کی مشکل آسان کردی اور انہوں نے کورونا کے خلاف جنگ کا فیصلہ ہونے تک منہ بند رکھنے اور سیاسی گفتگو سے پرہیز کا اعلان کردیا ہے۔ لیکن بھارتی حکومت کشمیریوں کے خلاف اقدامات بدستور کررہی ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد ڈومیسائل کے قانون کا اعلان کیا گیا ہے جس کا مقصد کشمیر کی مسلمان آبادی کا تناسب تبدیل کرنا ہے۔ وہ بھارت سے ہندوئوں کو لاکر کشمیر میں آباد کرنا چاہتے ہیں۔ یوں وہ کشمیر کی شناخت کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ ڈومیسائل کے اس قانون کے تحت سرکاری محکموں میں چپڑاسی، خاکروب، نچلی سطح کے کلرک وغیرہ کے کام جو چوتھے درجے کے عہدے کہلاتے ہیں کشمیریوں کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں، جب کہ گزٹڈ عہدوں کے لیے پورے انڈیا سے امیدوار نوکری کے لیے اہل ہوں گے۔ یہ کشمیریوں کے لیے ذہنی ٹارچر کا قانون ہے۔
اس وقت جب کہ کورونا وائرس نے دنیا کو جکڑا ہوا ہے مودی حکومت ایسے وقت میں بھی کشمیریوں کے اوپر مظالم میں مصروف ہے۔ ہزاروں نوجوانوں کو جیلوں میں ڈالا ہوا ہے، پہلے سے موجود پانچ لاکھ افواج میں مزید دو لاکھ کا اضافہ کیا گیا۔ لیکن مہینوں کے کرفیو اور لاک ڈائون کے باوجود حالات پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ بین الاقوامی ایمنسٹی انٹرنیشنل، رپورٹرز ود آئوٹ بارڈر اور انٹرنیٹ فائونڈیشن کے اداروں نے بھارتی حکومت سے کشمیر میں انٹرنیٹ سروس کھولنے کے لیے کہا ہے لیکن بھارتی حکومت آمادہ نہیں ہوئی اور وجوہات میں سیکورٹی کی صورت حال کا حوالہ دیتی ہے۔ یعنی خود اعتراف کرتی ہے کہ لاکھوں افواج اور سیکورٹی فورسز بھی کشمیر میں حالات کو معمول پر لانے میں ناکام رہے ہیں۔ پچھلے ماہ امریکی سینیٹروں کے ایک گروپ نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے نام ایک مراسلہ تحریر کیا۔ اس میں بھارت کی قبضہ پالیسی اور شہریت کے قانون میں مسلمانوں کو باہر رکھنے کے موضوعات پر تحقیق کا مطالبہ کیا ہے۔ اس میں انہوں نے لکھا کہ جمہوریت کی تاریخ میں بھارت پہلا ملک ہے جو پچھتر ملین انسانوں کی سہولت اور روزگار اور تعلیم تک رسانی کے حق کو غضب کیے ہوئے ہے اور سیکڑوں سیاسی رہنمائوں کو جیلوں میں ڈالا ہوا ہے۔ انہوں نے بھارتی سیکورٹی فورسز کی جانب سے انتہائی طاقت کے استعمال کی تحقیق کی بھی اپیل کی ہے۔ یہ مطالبات پرانے ہیں لیکن تحقیق کیسے کی جائے گی بھارت تو میڈیا کو کشمیر کے اندر جانے کی اجازت دینے پر آمادہ ہی نہیں ہے بلکہ وہ تو مہینوں سے سوشل میڈیا کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے انٹرنیٹ اور موبائل کی سہولت پر پابندی لگا چکا ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان کہہ چکے ہیں کہ بھارت کنٹرول لائن پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتا رہا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کو جانی اور مالی نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اکثر مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ فروری میں پاکستان کے دورے پر انہوں نے ثالثی کی پیشکش بھی کی تھی جس کو بھارت نے پائے حقارت سے ٹھکرا دیا تھا۔ امریکی صدر بھی کئی بار ثالثی کی پیشکش کرچکے ہیں، جس کا جواب بھی انہیں کوئی حوصلہ افزا نہیں ملا تھا۔ اس سب کے باوجود بھارت دنیا کے انسانی حقوق کے علمبرداروں کا لاڈلہ بچہ ہی بنا ہوا ہے۔ سو وہ مقبوضہ کشمیر میں تشدد کی نئی انتہائوں کی طرف جاتا نظر آرہا ہے۔ کورونا کی وبا کے باوجود کشمیر میں تشدد کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ چند دن قبل کشمیریوں کی بھارتی فوج کے ساتھ جھڑپ ہوئی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کشمیریوں کے حوصلے نو ماہ کے لاک ڈائون کرفیو اور کورونا کی وبا کے باوجود جوان ہیں، جو اس بات کا اشارہ ہیں کہ کشمیری آزادی سے کم کسی بات کے لیے آمادہ نہیں۔ خواہ فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ اپنے منہ بند رکھیں یا بی جے پی ’’اپنی پارٹی‘‘ کی صورت میں کسی نئے سیاسی چہرے کو سامنے لانے کی کتنی ہی تیاریاں کرتا رہے اور بین الاقوامی برادری تحقیقات، بیانات اور مطالبات سے آگے بڑھنے کے لیے کوئی قدم نہ اٹھائے۔ پیلٹ گنوں سے آنکھیں گنوانے اور گولیوں کے سامنے سینہ سپر مقبوضہ کشمیر کے لوگ آزادی حاصل کرکے رہیں گے۔