بچوں کی حفاظتی ویکسین کی قلت،امراض پھیلنے کا خدشہ

373

کراچی(اسٹاف رپورٹر)کورونا وائرس کےسبب نقل و حمل متاثر ہونے سے نوزائیدہ بچوں کی ویکسین کی فراہمی اور ترسیل میں مشکلات پیش آرہی ہیں جس کے نتیجے میں کراچی سمیت سندھ کے مختلف اضلاع میں ویکسین کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔

لاڑکانہ، شکارپور،سکھر اور دیگر اضلاع کے ضلعی صحت مراکز میں پانچ موذی امراض یرقان، گردن توڑ بخار، خناق اور جھٹکوں کی بیماری تشنج سے بچانے والی پینٹا ولنٹ ویکسین کی قلت ہوگئی ہے۔ویکسین کی قلت کی وجہ سے نوزائیدہ بچوں کی حفاظتی ویکسینیشن نہیں ہو پا رہی ہے جس سے بچوں کے بیمار ہونے اور مرض پھیلنے کا خدشہ ہے۔

ماہر امراض اطفال ڈاکٹر اظہر چغتائی کا کہنا ہے کہ نوزائیدہ بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کے کورس میں پینٹاولنٹ کے ساتھ نمونیا سے بچاؤ کی ویکسین نیموکوکل کا ٹیکہ بھی لگایا جاتا ہے۔

ضلعی صحت مراکز میں پینٹاولنٹ ویکسین نہ ہونے کے باعث نمونیا کے لیے استعمال کی جانے والی ویکسین نیموکوکل کا بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے،مذکورہ بیماریوں میں دونوں ویکسین کا ایک ساتھ استعمال ہونا لازمی ہے۔

لاڑکانہ کےحفاظتی ویکسین سینٹر میں 6 ویکسین ڈوزز میں سے 2، 3 اور 4 ڈوز ختم ہو چکی ہیں۔چانڈکا ہسپتال سمیت لاڑکانہ کے 11 صحت کے حفاظتی مراکز میں مذکورہ ویکسین ختم ہو چکی ہے۔ویکسین نہ ہونے سے چانڈکا چلڈرن ہسپتال میں یومیہ بنیادوں پر 150 بچوں کو ویکسینیشن کے بغیر واپس بھیجا جا رہا ہے۔محکمہ صحت سندھ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران ٹرانسپورٹ نہ ہونے سے ویکسین کی فراہمی متاثر ہوئی ہے جس کی وجہ سے سندھ بھر کے حفاظتی مراکز میں ویکیسن کی قلت دیکھنے میں آرہی ہے۔

صوبائی محکمہ صحت کے ڈاکٹر سکندر میمن کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی فلائٹس بند ہونے کے باعث عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے محکمہ صحت سندھ کو ویکسینز کی ممکنہ قلت سے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا۔

محکمہ صحت سندھ کی جانب سے بھی تمام ای پی آئی انچارجز اور ضلعی ہیلتھ افسران کو عالمی ادارہ صحت کی جانب سے بتائی گئی ممکنہ قلت کا مراسلہ جاری کیا گیا تھا۔گلشنِ اقبال کے رہائشی شرجیل احمدکا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کی عمر 5 ماہ ہے، کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے سبب وہ اسے ہسپتال لے کر نہیں گئے کیوں کہ ہسپتالوں سے بیماری پھیلنے کا خدشہ ہے۔

شرجیل کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر نے انہیں فون پر تسلی دی تھی کہ دوسری اور تیسری ویکسینیشن کے درمیان ایک آدھ ماہ کی تاخیر ہوسکتی ہے۔

عالمی ماہرین نے پہلے ہی کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورت حال میں بچوں کی ویکسینیشن میں تعطل کا عندیہ دیا تھا۔

پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں تمام بچوں کی ایمیونائزیشن یقینی بنانے کے لیے کام کرنے والی تنظیم گلوبل ویکسینیشن الائنس(گاوی) کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق موجودہ عالمی لاک ڈاؤن صورت حال میں 13.5 ملین بچوں کی ویکسینیشن متاثر ہونے کا اندیشہ ہے جبکہ آنے والے دنوں میں اس تعداد میں اضافہ ہوگا۔

گاوی کے سی ای او ڈاکٹر سیتھ برکلے نے اپنے بیان میں اس خدشے کا اظہار کیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کورونا وائرس کو روکنے کے چکر میں خسرہ اور پولیو پھیل جائے۔

عالمی ماہرین نے پہلے ہی کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورت حال میں بچوں کی ویکسینیشن میں تعطل کا عندیہ دیا تھا۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے محکمہ صحت کا تمام تر عملہ برسرپیکار ہے،اس صورت میں حفاظتی ویکسینیشن کی مہم کے لیے اضافی صحت اہلکار دستیاب نہیں ہے۔

سماجی فاصلے اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے پولیو مہم بھی تعطل کا شکار ہے،اندرون سندھ کے اضلاع میں اپریل کے وسط میں پولیو مہم کا آغاز ہونا تھا تاہم موجوہ صورت حال میں یہ معاملہ ابہام کا شکار ہے۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال 80 لاکھ بچوں کی پیدائش ہوتی ہے۔ یونیسیف کے مطابق پاکستان کے نوزائیدہ بچوں میں سے ایک تہائی حفاظتی ویکسینیشن سے محروم رہ جاتے ہیں۔

بچوں کو پیدائش سے لے کر 15 ماہ کی عمر تک مختلف اقسام کی ویکسینز لگائی جاتی ہیں جو انہیں 10 خطرناک امراض سے محفوظ رکھتی ہیں۔

وفاقی حکومت کے ای پی آئی پروگرام کے تحت عالمی تنظیموں ڈبلیو ایچ او، یونیسیف اور گاوی کے تعاون سے یہ تمام ویکسین مفت فراہم کی جاتی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو دنیا کے ان 10 ممالک میں شامل کیا ہے جہاں ان بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جنہیں ویکسین نہیں لگتی ہے۔پاکستان میں اندازاً 66 فیصد بچوں کی ویکسینیشن کی جاتی ہے جس میں سندھ کی شرح 49 فیصد ہے۔

قومی ای پی آئی پروگرام کی جانب سے جاری بیان کے مطابق کورونا وائرس کی صورت حال میں پاکستان کو یونیسیف کو مزید ویکسین کا آرڈر دینے میں دقت پیش آرہی ہے،جبکہ قومی اور بین الاقوامی فضائی فلائٹس معطل ہونے کی وجہ سے ویکسین کی ترسیل میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔

ای پی آئی پروگرام کے کوارڈینیٹر ڈاکٹر رانا صفدر کا کہنا ہے کہ اس وقت تمام حکومتی وسائل اور توجہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے پر مرکوز ہے جس وجہ سے مزید ویکسین کا آرڈر دینے میں کچھ تاخیر ہوئی ہے۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ فارماسوٹیکل کمپنی کے سینیئر عہدیدار نے بتایا کہ پاکستان میں کام کرنے والی تمام بڑی فارماسوٹیکل کمپنیاں تین ماہ کی تیار دواؤں کااسٹاک رکھتی ہیں جبکہ مزید تین ماہ کا خام مال بھی موجود رہتا ہے،لہٰذا تاحال فارماسوٹیکل کمپنیوں کے پاس دواؤں کی قلت سامنے نہیں آئی ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ تھوڑی بہت قلت پیدا کی جا رہی ہے تاکہ حکومت سے دیگر شعبوں کی طرح فارماسوٹیکل شعبے کے لیے بھی ریلیف پیکج کا مطالبہ کیا جا سکے۔