بعد از کورونا… معیشت؟

313

کورونا وائرس کے حملوں سے دنیا بھر کی معیشت کو اب تک کی خبروں کے مطابق 1000 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین معیشت نے اس خسارے سے نمٹنے کے لیے سر جوڑ لیے ہیں۔ اسی اثنا میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور امریکا میں ٹھن گئی ہے امریکا کو یہ اعتراض ہے کہ WHO نے کورونا وائرس کی اطلاعات کے باوجود احتیاطی تدابیر ترتیب دینے میں اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کیں جس کی وجہ سے حکومتوں اور خاص طور پر امریکی حکام کو اس وائرس کی سنگینی کا احساس تک نہ ہوسکا اور نہ وہ اس کے لیے ذہنی طور پر ہی تیار ہو سکے کہ وہ اس سے بچائو کے لیے کچھ تدابیر وقت پر ہی اختیار کر لیتے تو اتنی گہری چوٹ نہ کھاتے۔ دنیا بھر کے ممالک نے اس سے پہنچنے والے نقصانات کو پورا کرنے کے لیے اپنے اپنے طور پر حکمت عملی تیار کر رکھی ہوںگی لیکن ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے جن ممالک کے معاشی نظام مضبوط بنیادوں پر قائم ہیں اور ظاہر ہے ان نظام ہائے معاشیات میں اس بات کا بھی خیال رکھا گیا ہوگا کہ کسی وجہ سے اگر معیشت یک دم زمین بوس ہو جائے یا عرف عام میں معیشت کا یک دم دیوالیہ نکل جائے تو اس سے نمٹنے کے لیے کیا کیا اقدامات کیے جانے چاہییں۔ یہ صرف انہیں ممالک میں ممکن ہو سکے گا جن کی معیشت مضبوط بنیادوں اور مضبوط ہاتھوں میں ہوگی اور ان ممالک کے باس اپنی تباہ حال معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے بہت سے ذرائع یا آپشنز بھی ہوںگے۔ مغرب بشمول امریکا کے بیش تر ممالک کی برامدات بہت زیادہ ہے اور ان کے کارخانوں فیکٹریوں اور دیگر صنعتی اداروں کا پہیہ اگر پہلے پچاس کی رفتار سے گھوم رہا تھا تو وہ پوری قوم ملک کو کنگال ہونے سے بچانے کے لیے صنعت کا پہیہ 100 کی رفتار میں گھما دے گی لیکن بنیادی شرط تو ہے ہی وہی کہ صنعت کا پہیہ گھوم بھی رہا ہے یا نہیں اگر صنعت کا پہیہ گھوم رہا ہے تو ان ممالک کی کرنسیوں میں تھوڑی بہت تنزلی آئی بھی تو وہ اس کو فوری طور پر مستحکم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور ایک دو سال میں زندگی پہلے کی طرح رواں دواں ہو جائے گی پھر کورونا وائرس قصہ پارینہ بن جائے گا۔
پاکستان کی معیشت جس طرح پہلے ہی زبوں حالی کا شکار تھی اب بھی وہیں کھڑی ہے اس لیے جب ایسے تجزیے کا رخ پاکستان کی طرف موڑنے کی کوشش کی جائے تو روح تڑپ اٹھتی ہے کہ جو ملک ایک کورونا وائرس کے معمولی جھٹکے سے ہی اپنی کرنسی کو ڈوبنے سے نہیں بچا سکا وہ کورونا کے جانے کے بعد کس طرح اپنی معیشت کو بحال کرپائے گا کیونکہ یہاں تو 73 سال سے کوئی کام بھی مستقل اور ٹھوس بنیادوں پر نہیں ہوا ہر اقدام کھوکھلی اور وقتی بنیادوں پر ہی کیا جاتا ہے اور ایڈہاک ازم کا سانپ پوری معیشت کو ہڑپ کرتا جارہا ہے مگر نہ تو اہل اقتدار اہل ثابت ہوئے کہ وہ معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے اقدامات کرتے، کسی بھی شعبے کو لے لیں وہاں کھیل میں سیاست اور سیاست میں کھیل کے مصداق صورتحال نظر آتی ہے یہی وجہ ہے کہ پہلے ہی چار ہفتوں میں ڈالر 30 فی صد مہنگا ہو گیا۔ بقول عمران خان نیازی کے اگر ڈالر ایک روپیہ مہنگا ہوجائے تو ملک کے قرضوں میں 900 ارب کا اضافہ ہوجاتا ہے مگر یاد رہے یہ بیان ان کے اقتدار میں آنے سے پہلے کا ہے اب ڈالر 37 روپیہ مہنگا ہوگیا لیکن خان صاحب حساب نہیں لگا پائے کہ 170 کا ڈالر ہونے کے بعد کتنے سو ہزار مزید قرضوں میں اضافہ ہوگیا ہے پہلے سنا کرتے تھے کہ پچھلی حکومتوں نے 30 ہزار ارب کا قرضہ لیا ہوا ہے اس وقت ڈالر 100 کے آگے پیچھے ہوا کرتا تھا مگر موجودہ حکومت نے تو پچھلے سارے ریکارڈ ہی توڑ دیے ہیں اور رہی سہی کسر کورونا وائرس نے پوری کردی کل ملا کرڈالر 67 فی صد مہنگا ہوگیا اس طرح اگلے پچھلے قرضے ملا لیے جائیں تو اس وقت وطن عزیز کم و بیش 90ہزار ارب کے قرضوں میں جکڑ چکا ہے۔ جو قوم تیس ہزار ارب کا بوجھ نہ اٹھا پا رہی تھی اور مہنگائی کی چکی میں پستی جارہی تھی اور معیشت اپنی آخری سانسوں پر تھی تو اب اس سے تین گنا زیادہ قرضوں کے بوجھ تلے دب کر کتنی دیر اور سانسیں لے سکتی ہے جبکہ مہنگائی کا طوفان پوری قوم کو تنکے کی مانند اڑا کر لیجائے گا۔ 30 ہزار ارب کے قرضوں کے وقت ملک کی ایک تہائی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور تھی اب لامحالہ 2 تہائی آبادی خط غربت سے نیچے چلی جائے گی۔ قوم میں خود کشی کا رجحان بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ کوئی صنعت لگانے کو تیار نہیں ہر ایک اپنے کام کو انڈسٹری کہنے پر تلا ہوا ہے۔ عمران نیازی صاحب کی حکومت میں چینی اور گندم پر اربوں کے فراڈ کی تحقیقات کا آغاز ایسے کیا گیا ہے کہ اس کے نتائج تک پہنچنے سے پہلے ہی ملوث افراد کی تیسری نسل حکومت میں آچکی ہوں گی اس کے بعد ایک اور کمبل تیار کر لیا گیا کہ 2008 سے 2018 تک لیے گئے قرضوں کی چھان بین کی جائے گی کہ قرضے کہاں کہاں سے لیے گئے اور کہاں کہاں خرچ کیے گئے اب ان دونوں لولی لنگڑی تحقیقات میں کون کس کو ڈھانپ رہا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
یہ ہے وہ رویہ جو کسی قوم کو دنیا میں پنپنے نہیں دے سکتا۔ گزشتہ 35 سال سے دو جماعتی نظام میں یہی ہوتا آرہا ہے آنے والا جانے والے کو اور پھر جانے والا آنے والے کو لعن طعن کرکے وقت گزار دیتا رہا ہے اور قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے دونوں نے اس ملک کے خزانوں پر بے دردی سے ہاتھ صاف کیا ہے سب یہیں موجود ہیں ریکارڈ بھی موجود ہوں گے مگر عدالتوں کے گھن چکر میں ایسا پھنسایا جاتا ہے کہ گلے کی چھچھوندر بن جاتی ہیں نہ نگلے چین نہ اگلے چین پھر اگلے انتخابات کے بعد وہی کھیل دوبارہ شروع ہو جاتا ہے اور قوم ایک بار پھر لائنوں میں لگ لگ کر اس امید سے اپنا ووٹ دینے لگتی ہے کہ شاید آنے والا اس کے لیے کچھ کرجائے مگر وہی دھاگ کے تین پات۔ یہاں ہمارا موضوع یہ نہیں ہے ہم تو فکر مند اس بات سے ہیں کہ کورونا کی موجودگی میں اور اس کے رخصت ہونے کے بعد ملکی معیشت پر کیا منفی اثرات پڑرہے ہیں اور پڑیں گے۔
(جاری ہے)