نیل پالش… ایک خوبصورت زہر

329

فاطمہ عزیز
آپ میں سے کوئی نیل پالش لگانے کا شوقین تو ضرور ہوگا بلکہ مجھے یقین ہے کہ بہت سی کواتین اپنے ہاتھ پائوں صاف ستھرے رکھنے کے لیے پیڈی کیور اور مینی کیور کا سہارات لیتی ہوں گی۔ مگر ان ساری خواتین کے لیے ایک بڑی خبر ہے۔ کبھی آپ نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ نیل پالش کیسے بنتی ہے؟ اس میں کیا اجزاء استعمال ہوتے ہیں۔ مجھے یقین ہے آپ نے کبھی بھی اپنی پسندیدہ نیل پالش کی بوتل کو اٹھا کر اس میں لکھے اجزاء پڑھنے کی کوشش نہیں کی ہوگی۔ مگر کوئی بات نہیں، آج آپ کے لیے موقع ہے کہ آپ اس بارے میں تحقیق کریں۔ آپ کو یہ جان کر افسوس ہوگا کہ زیادہ تر نیل پالش بنانے میں جو اجزاء استعمال ہوتے ہیں وہ صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔
ڈیوک یونیورسٹی اور ماحولیاتی آلودگی سے بچائو کی ایک این جی او نے مل کر ایک تحقیق مکمل کی جس کے مطابق انہوں نے نیل پالش کے اندر ایسے اجزاء پائے ہیں جو خواتین کے اینڈو کرائن کے کام کو متاثر کرتا ہے۔ اینڈو کرائن انسان کے دماغ میں موجود وہ عضو ہے جو ہارمونز پیدا کرتا ہے اور یہ مختلف ہارمونز انسان کے جسم میں مختلف ضروری کام انجام دیتے ہیں۔
ڈیوک یونیورسٹی کی ریسرچ میں بہت ساری تین کو نیل پالش لگائی گئی اور پھر ان کے ہارمونز لیول چیک کیے گئے تو معلوم ہوا کہ تمام خواتین کے خون میں ایک اجزاء (TPHP) ٹرائی فینائل فاسفیٹ کی مقدار زیادہ پائی گئی ہے۔ یہ اجزاء عموماً پلاسٹک بنانے میں کام آتا ہے اور عموماً نیل پالش بنانے والی کمپنیاں بھی اس کا استعمال کرتی ہیں جس کے نتیجے میں یہ خواتین کے ناخنوں سے ان کے خون میں داخل ہو جاتا ہے۔ جن تمام خواتین کو نیل پالش لگائی گئی ان کا خون کا ٹیسٹ اور یورین کا ٹیسٹ نیل پالش لگانے سے پہلے اور بعد میں لیا گیا جس سے یہ ثابت ہوا کہ ان تمام خواتین کے جسم میں بہت زیادہ تعداد میں TPHP پایا گیا اور صرف دس سے بارہ گھنٹوں میں اس کی تعداد سات گناہ بڑھ گئی اور بیس گھنٹے بعد کے چیک اپ نے یہ ثابت کیا کہ یہ تعداد ابھی مزید بڑھ رہی ہے۔ (TPHP) یہی وہ خطرناک کیمیکل ہے جو بعد میں خواتین کے دماغ میں جا کر اینڈو کرائن کے کام کو متاثر کرتا ہے جس کے نتیجے میں جسم کے کچھ غدود بڑھ جاتے ہیں اور کچھ کم ہو جاتے ہیں اور بعد میں خواتین کو بہت سی ہارمونل مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اکثر نیل پالش میں آپ نے لکھا دیکھا ہوگا کہ یہ نیل پالش فائیو تھلیٹ (5-Pthalate) یا تھری تھیلیٹ (3-Pthalate) سے پاک ہے مگر اس کی جگہ ایک اور نقصان دہ اشیا ڈال دی جاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان میک اپ کی اشیاء کے بارے میں نقصان سے جان لیا جائے کہ ان میں کیا کیا کیمیکلز شامل کیے گئے ہیں۔
خواتین کی اکثریت میں یہ تاثر عام ہے کہ چونکہ نیل پالش ہم جلد میں نہیں لگاتے بلکہ ناخن میں لگاتے ہیں اس لیے یہ جذب نہیں ہو سکتی۔ اس غلط فہمی میں نہ پڑیں کیونکہ ناخن بھی جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور دوسرا ناخن کے کنارے میں موجود جلد سے بھی نقصان دہ کیمیکلز جذب ہو جاتے ہیں۔ کچھ نیل پالش میں ایسے اجزاء شامل ہوتے ہیں جو کیمیکلز کو ناخنوں کے ذریعے خون میں جذب ہونے میں مدد دیتے ہیں۔
ڈریں نہیں، ہم آپ سے قطعاً یہ نہیں کہہ رہے کہ آپ نیل پالش نہ لگائیں یا اپنے ہاتھوں پیروں کو نہ سجائیں یا میک اپ کا استعمال نہ کریں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
مگر کوشش کریں کہ میک اپ اور نیل پالش یا پھر بالوں کی پروڈکٹس استعمال کرتے، خریدتے ہوئے اس بات کا دھیان رکھیں کہ اجزاء ایک دفعہ ضرور پڑھ لیں اور اگر اجزاء سمجھ نہیں اارہے تو گوگل سرچ کریں۔ اس طرح آپ نقصان دہ کیمیکلز کو پہچان جائیں گی اور دوبارہ ایسی چیزیں نہیں خریدیں گی جو صحت کو متاثر کریں۔ دوسرا مشورہ یہ ہے کہ میک اپ استعمال کرتے ہوئے ان پروڈکٹس کی طرف جائیں جن میں آرگانک اشیاء استعمال کی گئی ہیں۔ اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جو قدرت نے ہمیں مہیا کی ہیں نا کہ ایسے اجزاء جو کہ کیمکلز ہوں اور لیب میں تیار کیے گئے ہوں۔ اس کے علاوہ قدرتی چیزیں استعمال کریں جیسے مہندی اور عرق سے ہاتھ اور ناخن سجائیں۔