کورونا: امپیریل کالج کا ماڈل

660

کیلی فورنیا سے سینیٹر منتخب ہونے والے حیرام وارن جانسن نے 1918 میں کہا تھا کہ جنگ میں سب سے پہلا قتل سچ کا ہوتا ہے۔ آج سے تقریباً سو برس قبل کہا گیا یہ جملہ آج بھی اتنا ہی سچ ہے، جتنا اس وقت تھا۔ کورونا کی جنگ شروع کرنے میں بھی پہلا قتل سچ ہی کا ہوا۔ ووہان میں کورونا کو دریافت کرنے کے ساتھ ہی امپیریل کالج لندن نے Projected figures جاری کیے جس کے تحت دنیا کا حال بہت ہی برا ہونے والا تھا اور ہر جگہ لاشیں ہی لاشیں بکھری نظر آنی تھیں۔ 26 مارچ کو امپیریل کالج لندن کے جاری کردہ ان اعداد و شمار کے مطابق
(https://www.imperial.ac
.uk/news/196496/coronavirus
-pandemic-could-
have-caused-40/) اگر کورونا کے خلاف موثر اقدامات نہ کیے گئے تو 2020 میں چار کروڑ لوگ موت کا شکار ہوجائیں گے۔ امپیریل کالج کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی تقریباً پوری آبادی یعنی سات ارب افراد کورونا کا شکار ہوجائیں گے۔ کورونا سے روکنے کے لیے امپیریل کالج کے بزرجمہروں نے فوری طور پر سماجی فاصلے یا لاک ڈاؤن (میں اس پر پہلے لکھ چکا ہوں کہ عملی طور پر جسمانی فاصلہ رکھا جارہا ہے مگر سماجی فاصلے کی ترکیب اہم ہے اور یہی مقصود بھی ہے) کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس سے 95فی صد اموات کو روکا جاسکے گا۔ امپیریل کالج کے اس ماڈل پر عالمی ادارہ صحت نے فوری طور پر دنیا میں کورونا کے عالمی وبا ہونے کا اعلان کردیا اور یوں پوری دنیا ایک ایک کرکے لاک ڈاؤن کا شکار ہوگئی۔
جیسے ہی امپیریل کالج لندن نے یہ ماڈل پیش کیا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے اس ماڈل میں خامیوں کی نشاندہی کی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایپی ڈیمیالوجسٹ پروفیسر سونیترا گپتا (ڈاکٹر گپتا آکسفورڈ میں ماڈلنگ اسٹڈی کے ریسرچرز کی ٹیم کو لیڈ کرتی ہیں) نے امپیریل کالج لندن کے ماڈل میں سب سے بڑا سقم تو یہی بتایا کہ کورونا کا وائرس ظاہر ہونے سے قبل کم از کم ایک ماہ قبل نادیدہ طور پر پھیلتا ہے اور برطانیہ میں پہلا کیس ظاہر ہونے سے قبل آدھی برطانوی بادشاہت کووڈ 19 سے متاثر ہوچکی تھی۔ ڈاکٹر گپتا
(https://www.dailywire.com/
news/oxford-epidemiologist-
heres-why-that-doomsday-
model-is-likely-way-off) کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں بھی ایک ہزار میں سے چند افراد ہی اس حد تک متاثر ہوں گے کہ انہیں اسپتال میں داخلے کی ضرورت پڑے جبکہ بقیہ افراد یا تو معمولی علامات کے ساتھ خود ہی ٹھیک ہوجائیں گے یا پھر ان میں علامات ظاہر ہی نہیں ہوں گی۔ مگر عالمی ادارہ صحت نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماڈل کو رد کرکے امپیریل کالج کے ماڈل کو قبول کرلیا اور یوں دنیا میں تباہی پھیل گئی۔ سوئیڈن نے ڈاکٹر گپتا کے ماڈل پر عمل کیا اور دنیا نے دیکھا کہ عملی طور پر ڈاکٹر گپتا کا ماڈل ہی درست تھا۔
یہاں پر یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ آخر عالمی ادارہ صحت کیوں امپیریل کالج کا ماڈل ماننے پر مصر رہا۔ اس کا جواب ہمیں اس وقت مل جاتا ہے جب ہم ان دونوں اداروں (عالمی ادارہ صحت اور امپیریل کالج) کے فنڈز مہیا کرنے والوں کو دیکھتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کو امریکا کے بعد سب سے زیادہ فنڈز بل گیٹس کی فاؤنڈیشن مہیا کرتی ہے اور امپیریل کالج کو بھی تحقیق میں مدد کے نام پر سب سے زیادہ فنڈز بل گیٹس کی فاؤنڈیشن ہی مہیا کرتی ہے۔ بل گیٹس کی فاؤنڈیشن ہی ویکسین سے ہزاروں ارب ڈالر کمانے کے پروجیکٹ پر کام کررہی ہے۔ بل گیٹس کی فاؤنڈیشن ہی ID2020 پروجیکٹ کی سب سے بڑی اسپانسر ہے۔
یہ بات صرف ڈاکٹر گپتا ہی نے نہیں کہی تھی کہ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں کورونا کے نتیجے میں اموات بڑھ جائیں گی۔ یہ بات دیگر ڈاکٹر بھی بار بار کہتے رہے۔ 29 اپریل کے آرٹیکل کورونا: ماہرین کیا کہتے ہیں، میں اس ضمن میں ماہرین کی آرا پیش کرچکا ہوں۔ اسی آرٹیکل سے ایک اقتباس۔
نیویارک سٹی میں واقع راکفیلر یونیورسٹی کے شعبہ بائیو اسٹیٹکس، ایپی ڈیمیالوجی اور ریسرچ ڈیزائن کے شعبہ کے طویل عرصے تک سربراہ رہنے والے Knut Wittkowski لاک ڈاؤن کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس صورت میں بیماری زیادہ پھیلے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف بیمار اور عمر رسیدہ افراد کو احتیاط کے طور پر گھروں میں رکھا جائے اور بقیہ زندگی معمول کے مطابق گزارنے کی اجازت دی جائے۔ ان کا طویل انٹرویو اس لنک

Home


epidemiologist-coronavirus-
could-be-exterminated-if-
lockdowns-were-lifted/ پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے ایپی ڈیمیالوجسٹ اور اس کے میٹا ریسرچ انویشن سینٹر کے کو ڈائریکٹر John Ioannidis کا کہنا ہے کہ کورونا کا لاک ڈاؤن محض غلط ڈیٹا کی بناء پر کیا گیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر کورونا کا شور نہ مچایا جاتا تو کسی کو پتا بھی نہیں چلتا اور لوگ یہی سمجھتے کہ فلو کی وجہ سے ایک اور انتقال ہوگیا۔ جون کا ریسرچ پیپر اس لنک https://www.thecollegefix.com/
stanford-epidemiologist-warns-
that-coronavirus-crackdown-
is-based-on-bad-data/ پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ہارورڈ اور پنسلوا نیا یونیورسٹی کے ماہرین نے سماجی فاصلے کی مخالفت کی اور اسے کار محض قرار دیا۔ ان ماہرین کی آرا اس لنک

Home


university-researchers-find-
no-additional-decline-in-
coronavirus-infection-rate-
from-lockdowns/ پر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
کورونا سے مرنے والے افراد کی اکثریت وہ ہے جو وینٹی لیٹر پر گئی ہے۔ اس کی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ امریکا اور دیگر ممالک میں کورونا سے مرنے والوں کا پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد ایک نئی بات سامنے آئی کہ مریضوں کے پھیپھڑے پھٹے ہوئے تھے۔ اس کے بعد پتا چلا کہ اصل مرض یہ ہے کہ کورونا کا جرثومہ سرخ خون کے ذرے سے آکسیجن لے جانے والے عنصر کو الگ کردیتا ہے جس کی وجہ سے پھیپھڑے آکسیجن کی کمی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جب ہائی پریشر پر انہیں وینٹی لیٹر پر incubate کیا جاتا ہے تو ان کے پھیپھڑے پھٹ جاتے ہیں۔ اس کا علاج ان ماہرین نے یہ تجویز کیا کہ ایسے مریضوں کو جنہیں سانس لینے میں تکلیف ہورہی ہو، انہیں بھاری مقدار میں آکسیجن فراہم کی جائے اور اگر وینٹی لیٹر پر منتقل کرنا مجبوری بن جائے تو انہیں انتہائی کم دباؤ پر incubate کیا جائے۔
ان ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر ایسے مریضوں کو خون منتقل کیا جائے تو چونکہ نئے خون میں سرخ ذرات سے آکسیجن لے جانے والے ذرات موجود ہوتے ہیں، تو اس طرح ان کی ریکوری بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پلازما کا طریقہ علاج سب سے زیادہ کامیاب ہے۔ امریکا اور دیگر ممالک میں کس طرح سے وینٹی لیٹر کو گیس چیمبر میں تبدیل کردیا گیا ہے۔
اس کو اس امریکی نرس کے انٹرویو https://m.thechronicle.com.
au/news/nurse-claims-nyc-
is-killing-patients/4005319/ میں دیکھا اور سنا جاسکتا ہے۔ مذکورہ نرس نے بتایا کہ لوگوں کو باقاعدہ مارا جارہا ہے۔
امریکا میں مقیم ایک ڈاکٹر نے پاکستان میں اپنے اعزہ (انہیں میں جانتا ہوں) کو بتایا کہ انہیں کورونا کا ٹیسٹ مثبت آگیا۔ وہ آئسولیشن میں چلے گئے۔ جب انہیں گلے میں زیادہ تکلیف ہوئی تو انہوں نے 911 کو کال کی۔ طبی ٹیم فوری طور پر پہنچی اور انہیں فوری طور پر nebulize کیا۔ جب ان ڈاکٹر صاحب کی حالت بہتر ہوئی تو 911 والوں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ گھر پر ہی رہیں اور اسپتال نہ ہی جائیں تو بہتر ہے۔ کیوں کہ انہوں نے ابھی تک اسپتال سے کسی کو زندہ واپس آتے نہیں دیکھا ہے۔ الحمدللہ اب وہ ڈاکٹر صاحب مکمل طور پر صحتیاب ہوچکے ہیں۔
دنیا پر غلبے کی جنگ میں انسان کو غلام بنانے کی کوشش پر گہری نگاہ رکھیں۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔