کورونا: تنزانیہ اور امریکا سے رپورٹیں

702

کورونا کے حوالے سے پہلے دو خبروں کا تذکرہ۔ امریکا کی بروکنگ انسٹی ٹیوشن کی جانب سے کروائی گئی تحقیق کے مطابق 17.4 فی صد ماؤں کا کہنا ہے کہ وہ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے 12 سال سے کم عمر بچوں کو مناسب خوراک نہیں دے پارہیں اور یہ اعداد و شمار 2008 کے مالی بحران سے بدتر ہیں۔ حوالہ https://urdu.geo.tv/latest/220776-۔ کورونا کی تشخیص کے لیے استعمال کی جانے والی کٹس کتنی معتبر ہیں، اس حوالے سے تنزانیہ کے صدر جان موگلفی کو شبہ ہوا کہ جس تیزی کے ساتھ لیبارٹریاں مثبت نتائج دے رہی ہیں، وہ مشکوک ہیں۔ انہوں نے جانچ کے لیے خفیہ طور پر جانور، پھل اور گاڑیوں کے تیل کے مختلف نمونے ٹیسٹ کے لیے بھجوائے، جہاں ایک پپیتے، ایک بٹیر اور بکرے کا کورونا ٹیسٹ مثبت آگیا۔ حوالہ https://urdu.geo.tv/latest/220770-۔
مذکورہ بالا دونوں خبریں اپنی وضاحت آپ ہیں۔ پہلی بات تو یہی ہے کہ جس طرح سے کورونا کے ٹیسٹ مثبت دیے جارہے ہیں اور اس بارے میں بتایا جارہا ہے، پاکستان میں کوئی ماننے کو تیار نہیں ہے کہ اس میں کوئی گڑبڑ بھی ہوسکتی ہے۔ اگر کوئی ڈاکٹر یا میڈیا پرسن کورونا ٹرانس سے باہر آتا تو اس بارے میں تحقیق کرتا اور کچھ یہی نتائج پاکستان میں بھی سامنے آتے۔ امریکا جیسے ملک میں اگر لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہر پانچواں بچہ خوراک کی کمی کا شکار ہے تو اسے ذرا پاکستان پر تو منطبق کرکے دیکھیں کیسی خوفناک تصویر سامنے آئے گی۔ اب بھی اگر کسی کو اب لاک ڈاؤن پر اصرار ہے اور وہ پاکستان میں کورونا کے وبا کی صورت پھیلنے پر بھی مصر ہے تو پھر انا للہ وانا الیہ راجعون ہی پڑھا جاسکتا ہے۔
کراچی میں لاک ڈاؤن کے حامیوں سے ایک ہی درخواست ہے کہ جس طرح سے بریکنگ دی جاتی ہے کہ کراچی میں اتنے کورونا کے مزید مریض دریافت ہوگئے اور اتنے لوگ جان سے گئے، بالکل اسی انداز میں وفاقی ادارہ برائے امراض اطفال المعروف بچوں کے جناح اسپتال سمیت سارے ہی اسپتالوں سے صرف بچوں کے داخلے اور مرنے کی روز خبر ہی نشر کردیں تو پتا چلے گا کہ صرف ایک شہر کراچی میں کیا صورتحال ہے۔ اسی طرح سارے اسپتالوں میں رپورٹ ہونے والے کتوں کے کاٹنے کی رپورٹ روز نشر کریں۔ سارے اسپتالوں کو پابند کیا جائے کہ روز داخل ہونے والے اور مرنے والے مریضوں کی تعداد بھی اسی طرح کمشنر آفس کو بھیجی جائیں اور اسی طرح نشر کی جائیں تو پھر بہتر طور پر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہلاکت خیز کیا چیز ہے اور پہلی ترجیح کیا ہونی چاہیے۔ صحتیاب ہونے والے مریضوں کی تعداد کا میں اس لیے ذکر نہیں کررہا کہ میڈیا روز یہ بتاتا ہے کہ اب کورونا کے متاثرہ افراد کی تعداد کیا ہوگئی، وہ اس میں سے صحتیاب ہونے والے افراد کو نفی نہیں کرتا جس سے لگتا ہے کہ کراچی میں 23ہزار افراد کورونا زدہ گھوم رہے ہیں۔ یہ سارے ادارے کیوں یہ اعداد وشمار پبلک نہیں کرتے کہ کس اسپتال میں کتنے کورونا کے مریض ہیں اور کتنوں کا علاج ہورہا ہے اور کتنے صرف آئسولیشن وارڈ میں زبردستی رکھے گئے ہیں۔
کوئی مانے یا نہ مانے، انتظامیہ نے کورونا کو صرف لوٹنے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ کورونا کے نام پر جو بین الاقوامی قرضے لیے جارہے ہیں، وہ اپنی جگہ۔ عوام سے جو لوٹ مار جاری ہے اسے دیکھ اور سن کر آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ پولیس ڈبل سواری کے نام پر بھی گرفتار کرے گی اور رشوت بھی لے گی، ہر دکان کو کھولنے کے نام پر بھاری رشوت وصول کرے گی۔ آپ کے پاس بھلے ڈپٹی کمشنر کا اجازت نامہ ہو کہ دکان کھولی جاسکتی ہے، رشوت نہ دینے پر بند بھی کیا جاسکتا ہے اور تشدد کا نشانہ بھی۔ لاک ڈاؤن کے نام پر ہر سفر کرنے والے سے نذرانے کی وصولی الگ ہے۔ بالائی انتظامیہ اور صوبائی حکومت بڑی فیکٹریوں اور سپر اسٹورز سے خود معاملات طے کررہی ہے جس کے نرخ لاکھوں سے لے کر کروڑوں میں ہیں۔ بار بار لکھنے کے بعد اب کراچی انتظامیہ نے نوٹیفکیشن جاری کیا ہے کہ طبعی موت مرنے والوں کی تدفین کے لیے علاقہ ایس ایچ او کے اجازت نامے کی ضرورت نہیں۔ اسی کو ہر ایس ایچ او نے بھاری کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا تھا۔
جو لوگ اب بھی لاک ڈاؤن کے حق میں ہیں، ان سے دوبارہ سوال۔ کیا کراچی میں واقعی لاک ڈاؤن ہے یا لاک ڈاؤن کے نام پر محض مساجد، سرکاری دفاتر، مارکیٹیں اور فیکٹریاں بند ہیں اور اہل کراچی کا معاشی قتل عام جاری ہے۔ لاک ڈاؤن کے حامیوں سے ایک ہی درخواست ہے کہ کبھی کراچی کی سبزی منڈی، جوڑیا بازار اور لیاقت آباد کی ہول سیل اجناس مارکیٹ وغیرہ وغیرہ کا دورہ کرکے دیکھ لیں۔ چار تا پانچ بجے شام کسی بھی جگہ نکل جائیں اور لوگوں کے ہجوم کو دیکھ لیں۔ اگر انہیں چلنے کی جگہ مل جائے تو پھر ان کا موقف تسلیم کرلوں گا۔ اگر اس تمام کے باوجود کورونا نہیں پھیلا تو تنزانیہ کے تجربے کو تسلیم کرلیں کہ کھلواڑ کیا گیا ہے۔ کورونا کی وہ شدت اور ہلاکت خیزی نہیں ہے جس کا ڈراوا دیا گیا۔ اگر لاک ڈاؤن کے نتائج سے آگاہ نہیں ہیں تو خود ہی کوئی سروے کرلیں کہ کیا صورتحال ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی لاک ڈاؤن کی حمایت میں لڑنے مرنے کو تیار ہے، تو اس کے دو ہی مطالب ہیں۔ یا تو کورونا سے اس کے اپنے زبردست مفادات وابستہ ہیں یا پھر وہ انتہائی بھولا ہے۔ دونوں ہی صورتیں انتہائی خطرناک ہے۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔