اب پاکستان میں عوامی مقامات پر ’ماسک پہننا لازمی ہوگا‘

388

کراچی(اسٹاف رپورٹر)وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا ہے کہ اب ملک میں عوامی مقامات پر ماسک پہننا لازمی ہوگا۔

جمعے کووزیراعظم کے ہمراہ میڈیا بریفنگ میں ان کا کہنا تھا ‘اب تک تو ماسک ایک مشورے کے طور پر تھا کہ اگر پہن لیں تو اچھی بات ہے، نہ پہنیں تو کوئی پابندی نہیں ہے۔’

انہوں نے بتایا کہ ‘اب لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد گہما گہمی بڑھ رہی ہے اس لیے ماسک پہننا لازمی قرار دیا جا رہا ہے اور اس حوالے سے جلد ہی نوٹی فیکیشن بھی جاری کر دیا جائے گا۔’

ظفر مرزا نے مزید کہا کہ اس حوالے سے وہ مزید تفصیلات جلد فراہم کریں گے کہ کہاں کہاں اور کس کس کے لیے ماسک پہننا لازمی ہو گا۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’پاکستان کی ایک میڈیسن کمپنی کو کورونا وائرس کی دوا بنانے کی اجازت دی گئی ہے جو بہت خوش آئند اور ملک کے لیے عزت کا باعث ہے۔ پاکستان یہ دوا دنیا بھر میں فراہم بھی کرے گا۔‘

میڈیا بریفنگ میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے 15 کروڑ لوگ متاثر ہوئے ہیں اس کو کھولنا مجبوری ہے۔ ’ہم نے کورونا کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بھوک سے بھی مرنے سے بچانا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کو بھی کھولا جانا چاہیے۔‘

جمعے کو وبا کی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’پبلک ٹرانسپورٹ کھولنے پر ابھی تک اتفاق رائے نہیں ہو سکا کیونکہ ایک دو صوبوں کے تحفظات ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’امیروں کے پاس تو گاڑیاں ہیں لیکن پبلک ٹرانسپورٹ غریب کے لیے ہے، اس کی بندش کا مطلب غریبوں کے مسائل کو بڑھانا ہے۔‘انہوں نے صوبوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ پبلک ٹرانسپورٹ کو کھولا جائے۔

عمران خان نے کہا کہ ’جب امریکہ اور یورپ نے پبلک ٹرانسپورٹ اور ہوائی سفر بند نہیں کیا تو ہم ایسا کیوں کریں۔‘

ان کے بقول ’لاک ڈاؤن کی وجہ سے سب سے زیادہ وہ طبقہ متاثر ہوا ہے جس نے روزگار کمانا ہوتا ہے یا پھر ہفتے کی کمائی پر گزارا کرنا ہوتا ہے۔‘

وزیراعظم نے کہا کہ ’یہ تعداد ڈھائی کروڑ ہے، اور اگر ایک گھر میں چھ افراد کی شرح سے دیکھا جائے تو 15 کروڑ افراد اس صورت حال سے متاثر ہوئے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’24 اپریل کو لگائے جانے والے اندازے کے مطابق 14 مئی تک مریضوں کی تعداد 52 ہزار 290 ہونا تھی اور اموات 1300 سے زائد ہونا تھیں لیکن خدا کا شکر ہے کہ یہ تعداد ہمارے اندازوں سے کم ہے۔‘

وزیراعظم نے ڈاکٹروں اور میڈیکل عملے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ آپ پر بہت پریشر ہے۔ ہمیں لاک ڈاؤن کو ہی نہیں اس کے اثرات کو بھی دیکھنا ہے۔‘

عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ ’ماہرین اور سائنس دانوں کی آرا کے مطابق سال تک بیماری کی ویکسین یا علاج آنا مشکل ہے۔ اس لیے ہم کو کورونا کے ساتھ ہی جینا ہے، اس کے ساتھ ہی گزارا کرنا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’یہ جانتے ہوئے بھی کہ کیسز بڑھیں گے، ہم نے کورونا سے ہی نہیں بلکہ بھوک سے بھی لوگوں کو مرنے سے بچانا ہے۔‘

وزیراعظم نے بتایا کہ ’اگر ہمیں پتا ہوتا کہ کچھ مخصوص وقت میں کورونا ختم ہو جائے گا تو ایسا کیا جا سکتا تھا۔‘

’ایک، دو، تین ماہ تک لاک ڈاؤن رکھا جا سکتا ہے، لیکن اس کے بعد کیا ہوگا، کیا ہم اس سے زیادہ ہم افورڈ کر سکتے ہیں؟‘

وزیراعظم نے کہا کہ ’کورونا رش کی وجہ سے پھیلتا ہےاور اسی لیے لاک ڈاؤن کیا گیا۔ احتیاطی تدابیر پر عمل کیا جائے تو رش بھی نہیں ہو گا اور لوگوں کا کاروبار بھی چلتا رہے گا۔‘

عمران خان نے انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ایس او پیز پر عمل درآمد کاروبار کے مالکان کی ذمہ داری ہے۔ اگر کہیں ایس او پیز پر عمل نہیں ہوتا تو اس کاروبار کو سیل کیا جا سکتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’حکومت کو لاک ڈاؤن کے پہلے روز ہی یہ فکر تھی کہ دیاڑی دار طبقے کا کیا بنے گا۔‘بطور وزیراعظم آج بھی دس بار سوچتا ہوں کہ سفید پوش افراد کیسے گزارہ کر رہے ہوں گے۔