اینٹی باڈیز کیا لاک ڈائون سے باہر آنے کا طریقہ ہے؟

269

جرمنی، برلن میں رہنے والے شہری’’ فیلکس جرمن‘‘ کو توقع نہیں تھی کہ اس سخت لاک ڈائون میں اس کے گھر آئے گا ۔ مگر جب دروازے کی گھنٹی بجی تو و ہ چونک اٹھا، کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا تو باہر ایک ڈاکٹر کھڑا تھ جو کہ ایسا لگ رہا تھا کہ ابھی ابھی آپریشن تھیٹر سے نکل کر آیا ہے کیونکہ اس نے گرین رنگ کا ماسک ، اسکرب ، دستانے سب کچھ پہن رکھا تھا ، ڈاکٹر کے ساتھ ایک پولیس آفیسر بھی تھا۔
فیلکس نے دروازہ کھولتے ہی دونوں ہاتھ اوپر اٹھا دیے اور کہنے لگا’’ میں نے کچھ نہیں کیا‘‘ جس پر سب ہنس پڑے ۔ معلوم ہوا کہ اچانک آ جانے والے ڈاکٹر کی ایک درخواست تھی ۔ وہ چاہتے تھے کہ فیلکس اور اس کے گھر والوں کا( بلڈ ٹیسٹ) خون کے نمونے لیے جائیں اور چیک کیا جائے کہ کیا ان کو کورونا ہے؟ اگر نہیں تو کیا ہو چکا ہے اور اگر ہو چکا ہے تو ان کے خون میں اینٹی باڈیز موجود ہیں؟ اینٹی باڈیز ہمارے دفاعی نظام کا وہ حصہ ہوتی ہیں جو بیماری پھیلانے والے وائرس کو پہچان لیتی ہیں اور اس سے لڑنے میں مدد دیتی ہیں ۔ چونکہ اینٹی باڈیز نئی بیماری کے وائرس کو پہچان نہیں پاتی اور کورونا کا مرض ایک نئی وبا ہے اس لیے جن افراد کو کورونا ہو چکس ہے اور وہ صحت یاب ہو چکے ہیں ان کے خون میں ایسی اینٹی باڈیز موجود ہیں جو کورونا کو پہچان کر اس کے خلاف لڑ سکتی ہیں ۔ ایسے لوگوں کاخون دوسرے کورونا کے مریضوان کے لیے چاہیے ہوتا ہے ۔ اسی مد میں ڈاکٹر چاہتے تھے کہ وہ فیلکس کا خون ٹیسٹ کریں فیلکس کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں تھا ۔ اس نے فوراً منظوری دے دی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ یہ پورے معاشرے کا مسئلہ ہے اور اس بیماری کے خلاف حکومت ان کی ہر طرح کی مدد کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ اس لیے وہ بھی اپنا حصہ ڈالنا چاہتا تھا ۔ فیلکس اور اس کی بیوقی نے خون کے نمونے دے دیے اور اس طرح وہ ان تین ہزار لوگوں میں شامل ہو گئے جو اس تحقیق کے لیے چنے گئے تھے ۔ اس ریسرچ کا اصل مقصد ان لوگوں کو ڈھونڈنا تھا جن کو کورونا ہو چکا ہے اور ان میں علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں ۔ اسی تفصیلی تحقیق نے جرمنی کو مغربی ممالک میں لیڈر بنا دیا کیونکہ اس ریسرچ کے بل بوتے پر جرمنی زپنے ملک کو لاک ڈائون سے باہر لانے میں کامیاب قرار دیا جاچکا ہے جبکہ دوسرے ممالک جیسے امریکا ابھی تک تمام لوگوں کو ٹیسٹ کی سہولیات میر کرنے میں قاصر رہا ہے جبکہ جرمنی نا صرف ٹیسٹ کر رہا ہے بلکہ جو لوگ صحت یاب ہوب چکے ہیں ان کو لاک ڈائون سے بری کرنے اور ان کی اینٹی باڈیز کو دوسروں کے علاج کے لیے استعمال میں لانے میں مصروف ہے ۔ جرمنی نے اپنی تمام عوام کے لیے ٹیسٹ فراہم کیا بلکہ ہر مہینے ان کے ٹیسٹ کر رہی ہے تاکہ جان سکے کہ وائرس کی پہنچ کہاں تک ہے؟ یہ کتنا خطرناک ہوسکتا ہے اور اس کی ویکسین بن سکتی ہے نہیں؟ حکومت اس ریسرچ کے نتیجے میں آگے فیصلہ کرے گی کہ ان کو کیا قدم اٹھانا ہے ۔ اہم فیصلہ یہ ہے کہ لاک ڈائون اور کتنے دن رکھنا چاہیے اور اس میں کس طرح نرمی رکھی جائے؟ یہی سوال اس وقت دوسرے ممالک کے لیے ایک معمہ بنا ہوا ہے ۔ آئس لینڈ اور کوریا جنہوں نے بڑے پیمانے پر ٹیسٹ کروائے اور ڈیجیٹل ٹریکنگ متعارف کروائی وائرس کو روکنے میں کامیاب رہے ہیں جبکہ اٹلی جو کہ سب سے بری طرح متاثر ہوا ہے اس کے لیے اینٹی باڈیز کا ٹیسٹ اور’’ امبونیٹی لائسنس‘‘( مطلب جو لوگ کورونا سے صحت یاب ہو کر اپنا دفاعی نظام’’ امبو نیٹی‘‘ مضبوط کر چکے ہیں) ایک قومی بچت بن چکا ہے کہ ملک کو ان بنیادوں پر کب اور کیسے کھولا جائے ۔ بڑی بڑی کمپنیز کے مالک اور منیجر اپنی کمپنی کھولنے سے پہلے ٹیسٹ اور لائسنس دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ طے کر سکیں کہ کس ورکر کو جاب پر بلانا محفوظ ترین ہے مگر اتنی احتیاطوں کے بعد بھی پلان خراب ہو سکتے ہیں ۔ اب سنگا پورمیں کیا ہوا؟ جب انہوں نے اپنے ملک کو کورونا سے محفوظ سمجھتے ہوئے لاک ڈائون کھولنے کی کوشش کی تو وائرس پہلے سے کئی گنا پھیل گیا اور اس پرلاک ڈائون کرناپڑا ۔ امریکا میں مسٹر ٹرمپ کافی جلدی میں ہیں کہ کسی طرح ملک کی معاشی سرگرمیاں بحال ہو جائیںکیونکہ یہ الیکشن کا سال ہے مگر ایکسرٹ نے خبر دار کر دیا ہے کہ ملک کو لاک ڈائون سے نکالنے سے پہلے مزید ٹیسٹ کرنا بہت ضروری ہیں ۔ ایسے میں جرمنی نا صرف اعلیٰ معیار کی ٹیسٹ کٹس خود تیار کر رہا ہے بلکہ تقریباً ایک سو بیس ہزار لوگوں کے خون کے نمونے روزانہ کی بنیاد پر حاصل کر رہا ہے ۔ اس وقت جرمنی کی آبادی تقریباً اسی ملین ہے ۔
چانسلر انجیلا مرکل جو کہ سائنسدان بھی ہیں کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے ہمارا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ملک کے ایک ایک فرد میں کورونا کا پتا لگا یا جائے ۔ اس سے ہمیں بہت مدد ملی ہم نا صرف وائرس کا پھیلائو روکنے میں کامیاب ہوئے بلکہ جرمنی میں کورونا سے اموات بھی کم ہوئیں ۔ پہلے کورونا کے دس مریض جو کہ تیس لوگوں تک بیماری پھیلاتے تھے اب کم ہو کر سات ہو گئے ہیں ۔ مگر جرمنی پر یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ اس مشکل صورتحال میں اپنے پڑوسی یورپین ممالک کی مدد نہیں کررہا ہے کیونکہ جرمنی جتنا دولت مند اور ترقی یافتہ ملک ہے اس سے حوصلے اور مدد کی امید دوسرے یورپی ممالک کو تھی وہ دیکھنے میںعنقا ہے ۔
جرمنی میں کورونا کے خلاف کامیابی کا راز یہ بھی ہے کہ عوام نے حکومت کی تمام ہدایات توجہ سے سنیں اور عمل پیرا ہوئے ، سوشل ڈیسٹنگ کو سمجھا ،جس کی وجہ سے جرمنی فائدے میں رہا ، اسی باعث جب ایک پولیس اور ڈاکٹر فل پروٹوکول کے ساتھ اپنے گھر کے دروازے پر دستک دیتے ہیں اور آپ کا خون مانگتے ہیں تو جرمنی کے لوگ گھبراتے نہیں ہیںبلکہ مدد کے لیے تیار نظر آتے ہیں ۔
اینٹی باڈی کی یہ تحقیق جو کہ ڈیپارٹمنٹ آف انفیکشن ڈیزز اینڈ ٹروپیکل میڈیسن یو نیورسٹی آف میونک ا سپتال کے تحت جاری ہے ۔اس وقت ملک کے مختلف حصوںمیںجاری ہے مگر سائنسدانوں نے اس بارے میں بھی آگاہ کیا ہے کہ ابھی یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ اینٹی باڈیز کی موجودگی کورونا سے بچائو کا باعث ہوسکتی ہیں یا نہیں مگر جب کورونا سے صحت یاب مریضوں کا خون کورونا کے مریضوں کو دیاگیا تو ان کے علاج میں بہتری آئی ہے ۔ ابھی تک یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ جن افراد کو کورونا ہو چکا ہے اور ان کے خون میں اینٹی باڈیزموجود ہیں وہ کتنے عرصے تک کورونا سے محفوظ رہ سکتے ہیں؟ کیا ان کودوبارہ کورونا ہو سکتا ہے؟ پروفیسر مائیکل ہولسچر جو کہ اینٹی باڈی ٹیسٹ کے سربراہ ہیں کا کہنا ہے کہ بہت سے ممالک نے ان سے رابطہ کیا ہے کہ اس ریسرچ کا پروٹوکول ان کو بھیجا جائے تاکہ وہ اپنے ملک میں بھی اس تحقیق کو کامیابی کے ساتھ چلا سکیں ۔ نیو یارک ٹائمز