جسٹس قاضی فائز عیسیٰ: کس کس کو ہضم نہیں ہورہا

715

اگرچہ یہ ناچیز قانون سے اتنا ہی واقف ہے جتنا وفاقی وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی چودھری فواد سائنس سے واقفیت رکھتے ہیں مگر منیر نیازی مرحوم کہہ گئے تھے کہ: اتنا تو سوچو منیر ذرا … جو شخص سن سکتا ہے وہ بول بھی تو سکتا ہے۔ بس ان کے اسی شعر نے تھوڑا سا حوصلہ اور مہمیز فراہم کی کہ اس تاریخی فیصلے پر اظہار خیال کروں۔ اگر اس کیس کا کھرا فیض آباد کے دھرنے کے فیصلے سے جوڑا جائے تو کیا مزائقہ ہے اور بعض اخبارات اور رہنمائوں کے بیانات اور تجزیہ نگاروں کے تجزیے بھی یہی بتاتے ہیں کہ اس کیس کا اصل محرک فیض آباد دھرنے کا فیصلہ ہے۔ تیرہ ماہ قبل جب اس مقدمے کی باز گشت سنی گئی تو پہلے پہلے لوگ اس حقیقت کو نہ سمجھ سکے بلکہ اس کیس کی اہمیت ہی کو نہ سمجھ سکے اور اکثر اس کو اخبارات میں بس ایک خبر کے طور پر لیتے رہے۔ لیکن جوں جوں کیس آگے بڑھتا گیا اس میں اہل علم و دانش اور ملک و قوم کا درد رکھنے والے اصحاب نے دلچسپی لینا شروع کی اور آخری اکتالیس سماعتوں نے تو گویا قانون کی ایک تاریخ ہی رقم کردی۔ جب میرے جیسے عام شہری کو یہ معلوم ہوا کہ جناب کیس یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے ایک فاضل جج صاحب اس بات کے ملزم پائے گئے کہ انہوں نے بیرون ملک جائداد بنائی ہیں اور عام طور پر یہی تاثر لیا جاتا ہے کہ بیرون ملک جائداد ناجائر طریقوں سے کمائی گئی دولت ہی سے بنائی جا سکتی ہیں اور عمومی تاثر کچھ غلط بھی نہیں جس نے حلال کمایا ہوگا وہ اپنے ملک میں ہی جائداد بنا کسی کھٹکے بنائے گا کیونکہ آف شور کمپنیوں کا کھیل بھی ایک ٹیبل پر بیٹھ کر ہی ناجائز دولت کو چھپانے یا کم از کم جائز گرداننے کے لیے کھیلا جاتا ہے۔ اس تصور ہی سے بہت سے محب وطن پاکستانیوں پر لرزہ طاری ہوگیا کہ عدالت عظمیٰ کا ایک سٹنگ جج ایسی حرکت کیسے کر سکتا ہے پھر عوام الناس نے بھی اپنی زبان کھولنی شروع کی اور ایک انگلی جو فاضل جج کی طرف اٹھ رہی تھی قوم نے سیکڑوں انگلیاں ان لوگوں کی طرف اٹھا دیں جنہوں نے اس قوم کا خون چوسا اور بیرون ملک اربوں کھربوں کی جائداد کے مالک بنے بیٹھے ہیں پھر تو حکومت کے لیے نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کی سی کیفیت ہوگئی کہ ان میں چند ایسے پردہ نشینوں کے نام بھی آنے لگے کہ جو اس کیس میں آگے آگے اچھل رہے تھے ایک موقع پر حکومت یہ کیس واپس بھی لینے کو تیار ہوگئی تھی وہ کیا کہتے ہیں کہ آئے ہو ابھی بیٹھو تو سہی کے مصداق حکومت کی راہ فرار کی یہ کوشش بھی ناکام ہوگئی۔
دوران سماعت فاضل جج صاحبان نے یہ استفسار کیا کہ جو باتیں صدارتی ریفرنس میں کی گئی ہیں ان ثبوتوں کو اکٹھا کرنے والی کون سی مجاز اتھارٹی تھی کہ وہ ایک سٹنگ جج کے خلاف کرمنل انداز میں جاسوسی کر کے ان کی جائداد کا سراغ لگاتی پھرے۔ اس کا تسلی بخش جواب نہ پا کر فاضل عدالت کو یہ کہنا پڑا کہ لگتا ہے کہ یہ کیس یا ریفرنس بد نیتی پر مبنی ہے اور اس کی شفافیت اور بد نیتی پر بھی بات ہو سکتی ہے۔ حیران کن حقائق یہ ہیں کہ اس ریفرنس کو جہاں بھی تیار کیا گیا اس کے مندرجات سے وہ تمام حلقے جن کو اس کیس میں جواب دہی کی چوکھٹ سے گزرنا تھا یکسر نابلد پائے گئے یہاں تک کہ وزیر قانون بھی بعض دفع فاضل عدالت کے سامنے یہ کہتے پائے گئے کہ وہ حکومت سے پوچھ کر کچھ کہنے کی پوزیشن میں ہوںگا یعنی وزیر قانون ہونے کے باوجود وہ اس کے مندرجات سے نابلد تھے اسی طرح ایف آئی اے اور دیگر ادارے بھی اپنی کم مائیگی کی دہائی دیتے نظر آئے۔
مذکورہ ریفرنس میں اتنے سقم تھے کہ فاضل عدالت کو کیس خارج کرنا پڑا اگر حکومت سمجھتی تھی کہ فاضل جج قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام جو جائداد خریدی ہیں ان میں ان کا بھی پیسہ لگا ہوا ہے تو یہ کیس سب سے پہلے فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کو جانا چاہیے تھا اور ٹیکس کے حوالے سے کہ ان جائداد پر ٹیکس کس کس نے اور کتنا کتنا بھرا لیکن حکومت نے جلد بازی میں یہ کیس براہ راست سپریم جوڈیشل کونسل کو روانہ کردیا وہاں سے ہوتا ہوا یہ کیس عدالت عظمیٰ تک پہنچ گیا جس کے دس رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی اور اس نتیجے پر پہنچی کہ اس کیس میں بہت زیادہ سقم موجود ہیں اور لگتا ہے کہ حکومت نے بدنیتی کی بنیاد پر جلد بازی میں اس کیس کو سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا ہے سنا ہے کہ FBR کی یہ بساط نہیں تھی کہ وہ عدالت عظمیٰ کے ایک سٹنگ جج کے خلاف انکوائری کرے لیکن اب یہ کیس عدالت عظمیٰ سے بیک فائر ہوکر FBR کو بھیجا گیا ہے یہاں پر بھی فاضل بنچ نے اپنی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا کہ ایک جج کو اس بات سے استثنیٰ حاصل ہونے کے باوجود حق صداقت اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے Out of Way جاکر کیس کو FBR کو بھیج دیا جن تین معزز جج صاحبان نے یہ نکتہ اٹھایا تھا کہ کیس FBR کو نہیں بھیجا جائے شاید ان کا اشارہ اسی استثنیٰ کی طرف ہو جو فاضل جج قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں جاتا ہے۔ اب ایک اور آئینی ادارہ پاکستان بار کونسل جو اس کیس میں ایک حیثیت میں فریق بھی تھی کیس پر نظر ثانی کے لیے عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے کو ہے حالانکہ وہ خود یہ سمجھتی ہے کہ ریفرنس میں بہت زیادہ سقم اور کمی کوتاہیاں موجود ہیں یہ تو ایک عام انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ جس کیس میں کوئی ایک چیز بھی حقائق یا قانون کی رو سے معیار پر پورا نہ اترتی ہو اس پر کیسے تادیر بحث کی جا سکتی ہے لا محالہ اس کیس کو واپس یا خارج ہی کیا جا سکتا ہے کہ پہلے کیس کی کمزوریاں دور کی جائیں اور دو ٹوک انداز میں کیس فائل کیا جائے تاکہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جا سکے۔ دوران کیس فاضل بنچ حکومت کو خبردار بھی کر چکی تھی کہ ایسی حرکت سے ماضی میں ایک حکومت کا بسترا گول کیا جا چکا ہے یہ اعلیٰ عدالت کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ کیس بدنیتی پر مبنی ہونے کے باوجود براہ راست حکومت کو گھر بھیجنے سے گریز کیا یعنی عمران نیازی بال بال بچ گئے۔ ایک سینئر قانون دان یہ بھی فرما رہے تھے کہ FBR کو کوئی اختیار ہی حاصل نہیں کہ وہ عدالت عظمیٰ کے ایک سٹنگ جج کے خلاف کوئی کیس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج سکے اس کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ وہ کام کرے جو اس کے ذمے لگایا گیا ہے اور اس کی رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کر روانہ کردے، اب یہ سپریم جوڈیشل کونسل کی صواب دید پر منحصر ہے کہ وہ ان رپورٹس کا جائزہ لیکر کس طرح کا ایک اور ریفرنس عدالت عظمیٰ کو بھیجتی ہے یعنی FBR کی حیثیت اس وقت اس لاچار شیر کی سی ہوگئی ہے کہ اس کے سارے دانت نکال کر اس کے سامنے ہرن کا گوشت ڈال دیا جائے اور وہ اس کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا رہے اس ناچیز کی رائے میں اگر حکومت نے جلد بازی یا بدنیتی کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا اور پہلے ہی کیس کو FBR کے حوالے کرتی کہ اس معاملے پر تحقیقات کر کے پہلے حکومت کو دکھائی جائیں پھر حکومت وزارت قانون اور دیگر ماہرین سے اس کیس کا جائزہ لینے کا کہتی پھر وہ سقم جو جلد بازی میں پیش کرنے پر رہ گئے تھے وہ پہلے ہی دور کرلیے جاتے اور ریفرنس جوڈیشل کونسل کو روانہ کیا جاتا جو اپنے دائرے اختیار کے مطابق کیس کی سماعت کرتی اور جب ضروری ہوتا کہ تو کیس کو عدالت عظمیٰ میں بھیج دیتی اس پر عدالت عظمیٰ اور ہر فریق مطمئن رہتا کہ چلو تمام قانونی پہلو پر حکومت نے کام کیا اور ایک پکا کیس عدالت عظمیٰ پہنچ گیا۔
پاکستان بار کونسل نے جو نظرثانی کی اپیل پر جانے کا فیصلہ کیا اس کا سہرہ بھی ایک قومی سطح کے چینل کے کامیاب و کامران اینکر پرسن کے سر جاتا ہے جو اس بات کو لیکر آگے بڑھے کہ ایسا واقعہ تو عدالتی تاریخ میں کبھی دیکھنے میں ہی نہیں آیا کہ ایک جج جس کے خلاف کیس چل رہا ہو وہ اچانک بنچ کے سامنے نمودار ہو اور ساری کاروائی کو روکنے کا کہے اور کہے کہ پہلے میری بات سنی جائے یہ تو بڑے اچھنبے کی بات ہوئی اور مزے کی بات کہ یہ اچھنبا کسی ماہر قانون یہاں تک کہ حکومت اور اس کے وکیل نے بھی محسوس نہیں کیا بلکہ فروغ نسیم تو اسی چینل پر اس بات پر اپنے تاثر دینے سے بھی گریز کرتے رہے لیکن وہ صاحب اسی پر بضد تھے کہ ایسا کیونکر ہوا اور ابھی تک کسی بیرسٹر ماہر قانون نے اس طرف اپنی گفتگو میں اشارتاً بھی لب کشائی نہیں کی۔ شاید وہ پہلا پتھر تھا جو کامیاب و کامران اینکر پرسن نے پھینکا اور جس نے پاکستان بار کونسل کے جمود میں ارتعاش پیدا کیا چوبیس گھنٹے تک کسی کو اس کیس کی باریکی کا احساس تک نہ ہوا اور اب اچانک پاکستان بار کونسل نظر ثانی کی درخواست تیار کرنے میں لگ گئی کہیں سے تو کوئی ڈوری ہلی ہے اور کچھ تو ہے جس کی پردہ داری کی جا رہی ہے حالانکہ پاکستان بار کونسل کو عدالت عظمیٰ کے تفصیلی فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے اور گیارہ صفحات کے مختصر فیصلے پر اچانک اس طرح سیخ پا ہوجانا بجائے خود کئی سوالات کو جنم دے رہا۔۔۔
بلکہ اچھنبے کی بات تو یہ ہے کہ ایک معزز جج کی جائداد کی چھان پھٹک ایک ایسا ادارہ کر رہا ہے جو خود ماورائے آئین و قانون تشکیل دیا گیا یہاں عنان حکومت نے اپنی طاقت کا بے جا استعمال کرنے کی کوشش کی لگتا ہے ARU کا ادارہ خالصتاً بنایا ہی ایک جج کو De-seat کرنے کے لیے اب عدالت عظمیٰ کا جو مختصر فیصلہ آیا ہے اس نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے کہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں چاہے وہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا حاضر جج ہی کیوں نہ ہو اور ایک بات اور یاد رکھنی چاہیے سیانے کہتے ہیں منہ سے نکلی بات اور کمان سے نکلا تیر واپس نہیں آتے۔