کسی قریبی ہستی کی جدائی کا صدمہ

210

کسی قریبی شخص کے انتقال کے صدمے سے دو چار ہونا ایک ایسا تکلیف دہ تجربہ ہے جس سے جلد یا بدیر ہر انسان کو گزرنا پڑتا ہے ۔ جب کسی انسان کی کسی قریبی ہستی کا انتقال ہو جاتا ہے تو اس پر کیا گزرتی ہے، اگر لوگ اس صدمے سے نکل نہ پائیں تو کیا ہوتا ہے اور ایسے لوگوں کی کس طرح مدد کی جا سکتی ہے۔
کسی بھی چیز کے کھو جانے لیکن خاص طور پر کسی قریبی انسان کی موت کے بعد انسان غم کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے۔ یہ تمام مراحل اپنا وقت لیتے ہیں لہٗذا اس ان کو جلدی سے دور نہیں کیا جا سکتا۔
کسی قریبی شخص کے انتقال کے فوراً بعد زیادہ تر لوگ پہلے کچھ گھنٹوں اور دنوں تک شدید بے یقینی کا شکار ہوجاتے ہیں ،انہیں یہ یقین نہیں ہوتا کہ ایسا ہو چکا ہے۔ بعض دفعہ ایسا کسی طویل اور شدید بیماری کے بعد ہوتا ہے جب کہ پتہ ہوتا ہے کہ ان کا رشتہ دار چند ہی گھنٹوں کا مہمان ہے لیکن اس کے باوجود انتقال کے بعد انہیں کچھ دیر تک اس پر یقین نہیں آتا۔ اس بے یقینی کا کچھ فائدہ بھی ہوتا ہے کہ انسان کو انتقال کے بعد کے کچھ مراحل مثلاً رشتہ داروں کو اطلاع دینا اور تدفین وغیرہ سے گزرنے میں کچھ آسانی ہو جاتی ہے لیکن اگر یہ حالت زیادہ عرصے تک رہے تو مشکل ہو سکتی ہے۔
جلد ہی یہ بے یقینی جھنجھلا ہٹ اور بے بسی میں بدل جاتی ہے جس میں انسان اس بچھڑے ہوئے شخص کو ڈھونڈنے اور اس سے دوبارہ ملنے کے لیے تڑپنے لگتا ہے حالانکہ اسے پتہ ہوتا ہے کہ یہ نا ممکن ہے۔ اس حالت میں انسان بے سکون رہتا ہے، روز مرہ کی باتوں پہ توجہ نہیں دے پاتا اور اس کی نیند بھی متاثر ہوتی ہے ۔ بعض لوگوں کو پریشان کن خواب بھی آتے ہیں۔ ان مراحل میں کچھ لوگ ایسا بھی محسوس کرتے ہیں جیسے انہیں مرنے والا شخص ہر جگہ نظر آتا ہو، خصوصاً ان جگہوں (پارک، سڑک، گھر) پر جہاں انہوں نے اسکے ساتھ زیادہ وقت گزارا ہو۔ بہت سے لوگ ایسے میں بہت زیادہ غصہ بھی محسوس کرتے ہیں،
بہت سے لوگ اپنے آپ کو مجر م سمجھنے لگتے ہیں اور سوچتے رہتے ہیں کہ وہ مزید کیا کہہ سکتے تھے اور کر سکتے تھے۔ اکثر لوگ بعد میں اپنے آپ کو قصور وار ٹھہراتے ہیں کہ شاید اگر وہ کچھ اور کرسکتے تو ان کا عزیز بچ جاتا۔ موت کسی کے اختیار میں نہیں اور بعض دفعہ پیچھے رہ جانے والوں کو بار بار یہ بات یاد دلانے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔
جھنجھلاہٹ، بے چینی اور غصے کی یہ کیفیت انتقال کےتقریباً دو ہفتے بعد سب سے زیادہ شدید ہوتی ہے۔ اس کے بعد اداسی، خاموشی اور لوگوں سے الگ تھلگ رہنے کی کیفیت حاوی ہو جاتی ہے۔ جذبات میں اتنی تبدیلی بعض اوقات دوستوں اور رشتہ داروں کو عجیب سی محسوس ہوتی ہے مگر یہ سب ایک قدرتی عمل ہے۔
انتقال کے تقریباً چار سے چھ ہفتوں کے بعد اداسی اور ڈپریشن کی کیفیت سب سے زیادہ نمایاں ہوتی ہے
غم سے گزرنے کے یہ تمام مراحل مختلف لوگوں میں مختلف طریقوں سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اکثر لوگ ایک یا دو سال بعد کسی بھی بڑے سے بڑے غم سے سمجھوتا کر لیتے ہیں۔ آخری مرحلہ وہ ہوتا ہے جس میں ان کا دل مان لیتا ہے کہ وہ خاص شخص انہیں چھوڑ کر چلا گیا ہے اور اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔ اس کے بعد وہ نئے سرے سے زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ ان کی اداسی ختم ہو جاتی ہے ، نیند صحیح ہو جاتی ہے اور طاقت و توانائی بحال ہو جاتی ہے۔
جو کسی قریبی عزیز کے انتقال کے صدمے سے گزر رہا ہو اس کے ساتھ وقت گزارنے سے رشتہ دار اور دوست بہت سہارا دے سکتے ہیں۔اس کو تسلی دینا ہی ضروری نہیں ہوتا بلکہ ان کے ساتھ کچھ دیر رہنے سے ہی ان کو بہت تسلی ملتی ہے۔
کبھی کبھی اس غم کے بارے میں کسی دوست یا رشتہ دار سے بات کرنے اور رونے سے بھی دل ہلکا ہوتا ہے۔ اس میں کوشش یہ کرنی چاہیئے کہ اسے اپنی بات کہنے اور رونے دیا جائے تاکہ دل کا غبار نکلے۔ شادی ، سالگرہ، برسی جیسے مواقعوں پہ عام طور سے کھو جانے والوں کا غم اور بڑھ جاتا ہے۔ ایسے موقعوں پہ قریبی دوستوں اور رشتہ داروں کےساتھ ہونے سے بہت حوصلہ ملتا ہے۔
روز مرہ کے کاموں مثلاً گھر کی صفائی، کھانا پکانا اور بچوں کی دیکھ بھال میں مدد کرنے سے دوسروں کا غم اور اکیلے پن کا احساس کافی حد تک بانٹا جا سکتا ہے۔
بنیادی طور پر غم کے ان تمام مراحل سے گزرنا بہت ضروری ہوتا ہے چاہے کتنا ہی وقت لگے۔ بعض لوگ ان سے جلد گزر جاتے ہیں اور بعض زیادہ وقت لیتے ہیں۔ اس لیے لوگوں پہ دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے کہ وہ جلدی سے نارمل زندگی میں آ جائیں۔ یہ سب آگے کی بہت سی مشکلات کو پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیتا ہے۔