کیا ایک عام دوازندگی بچا سکتی ہے؟

183

فاطمہ عزیز
ڈیکسا میتھا سون جو کہ ایک اسٹیرائوڈل دوا ہے، برطانیہ کے آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنس دان کے مطابق بہت ہی شدید بیمار کورونا مریضوں کو دی جاسکتی ہے۔ لندن میں منگل کے دن آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر نے یہ خبر نشر کی جس کے مطابق میتھا سون جو کہ عام دوا ہے اور انتہائی سستے داموں میں دستیاب ہے۔ کووڈ۔19 کے مریضوں کے علاج کے لیے مفید ہے۔ یہ خبر پھیلتی ہوئی وبا کے درمیان امید کی ایک کرن ہے۔ ان کے مطابق یہ دوا اگر پہلے استعمال کر رہے ہوتے تو بہت سی جانیں بچائی جا سکتیں تھیں۔
کورونا مریض جب بیماری کے آخری اسٹیج پر پہنچ جاتے ہیں تو وائرس ان کے پھیپھڑوں اور سانس کی نالی کے خلیوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے جس کے نتیجے میں مریضوں کو سانس لینے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس صورتحال میں ان کو آکسیجن فراہم کی جاتی ہے یا تو پھر وینٹی لیٹر میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں مریض کے بچنے کی امید کم ہوتی ہے اور مریض کا دفاعی نظام وائرس سے لڑنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے جب سانس میں دشواری پیش آتی ہے تو دفاعی نظام بے قابو ہو جاتا ہے اور سائیٹو کیسنز نامی ہارمونز پیدا کرنا شروع کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں انسان مر جاتا ہے۔ ڈیکسا میتھا سون وائرس سے پیدا ہونے والی پھیپھڑوں کی سوجن کو کم کرتی ہے اور انسان کے دفاعی نظام کو وائرس کے خلاف لڑنے سے روکتی ہے۔ یہ ان مریضوں کے لیے نہایت اہم دریافت ہے جو کہ مرض میں مبتلا ہو کر وینٹی لیٹر پر جا پہنچے ہوں۔ رپورٹ کے مطابق یہ دوا وینٹی لیٹر میں پہنچ جانے والے تین مریضوں میں سے ایک کو بچانے میں کا میاب رہی ہے جبکہ ایسے مریضوں کے لیے ڈاکٹرز کے پاس کوئی علاج میسر نہیں تھا ۔
اس خبر کے نشر ہونے کے بعد بہت سے ڈاکٹرز نے اس دوا کا استعمال شروع کر دیا ہے جبکہ بہت سے ڈاکٹر اس خبر کے مصدقہ ہونے کے انتظار میں ہیں ، وہ چاہتے ہیں کہ ریسرچ سے متعلق ڈیٹا اور سروے شائع کیا جائے تاکہ وہ محققین کی نظروں سے گزرنے کے بعد تصدیق شدہ ہو سکے ۔ ڈاکٹرز کا اس خبر کی تصدیق کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ جب سے وبا پھیلی ہے کافی خبریں جھوٹ ثابت ہو چکی ہیں جن میں سے ایک خبر تو یہ تھی کہ ایف ڈے اے نے کلورو کوئین اورہسکیسا کلورو کوئین جو کہ ملیریا کی دوائیں ہیں اور امریکا کے صدر ٹرمپ کے مطابق کورونا مریضوں میں استعمال کی جا سکتی تھیں کو غلط قرار دے دیا ہے اور ان کے استعمال پرپابندی لگا دی ہے ۔ ایف ڈی اے کے مطابق ملیریا کی دوا کرونا کے علاج کے لیے مفید نہیں ہے ۔ اسی طرح کی خبروں کی وجہ سے بہت سے ڈاکٹرز ڈیکسا میتھا سون کے متعلق بھی تصدیق چاہتے ہیں جبکہ دوسری طرف آکسفورڈ یونیورسٹی میں موجود چیف انوسٹی گیٹر پیٹر ہار بھی جو کہ انفیکشنی بیماریوں کے پروفیسر ہیں کا کہنا ہے کہ اس دوا نے ان مریضوں کی جان بچائی ہے جن میں بچنے کی کوئی امید باقی نہیں تھی۔ ڈیکسا میتھا سون کو استعمال میں لاتے ہوئے کچھ ڈاکٹرز خائف تھے کہ یہ دوا انسانی دماغی نظام کو وائرس کے خلاف کام کرنے سے روکے گی تومریض کی حالت تشویش ناک نہ ہو جائے مگر ایسا نہیں ہوا ۔ ڈاکٹر ہاربھی نے جو ریسرچ کی اس میں تقریبا اکیس سو ایسے مریضوں کو جو کہ وینٹی لیٹر پر پہنچ چکے تھے یا آکسیجن بائونڈ تھے دن میں ایک دفعہ کم مقدار میں ڈیکسا میتھا سون کی دوا دی گئی اوردوانے ان مریضوں میں بہترین نتائج دکھائے بنسبت ان چار برابر مریضوں کے جن کو دوا نہیں فراہم کی گئی اور وہ پانچ بچ نہیں سکے ۔ پروفیسر ہاربھی کے مطابق یہ دوا ان مریضوں کے لیے نہیں ہے جن کو علامات کم آئی ہیں اور ان کو آکسیجن کی ضرورت نہیں پڑی ہے ۔
ڈیکسا میتھا سون پچھلے پچاس سالوں سے استعمال ہونے والی ایک عام سی دوا ہے جو کہ آرتھرائیڈ، الرجی کے مریضوں اور کینسر میں دی جاتی ہے ، اس کے کچھ نقصانات بھی ہیں مگر یہ نسبتاً ایک مفید دوا ہے ۔
یونیورسٹی آف لیڈز کے پروفیسر اسٹیفن کا کہنا ہے کہ ’’ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ ڈیکسا میتھا سون جب اینٹی وائرل دوا ایم ڈیسور کے ساتھ دی جاتی ہے تو اس کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں ۔ ’’ یاد رہے کہ اس وقت کورونا کے مریضوں میں اینٹی وائرل دوا ایم ڈیسور سے علاج کیا جا رہا ہے اور اب تک اس کی کوئی ویکسین بھی ہیں نکلی ہے ۔
اس خبر کے نشر ہونے کے بعد برطانیہ کے ہیلتھ سیکرٹری میٹ ہانکوک نے تمام ڈاکٹروں کو مشورہ دیا ہے کہ ڈیٹا اور سروے شائع ہونے کے بغیر بھی اس دوا کو استعمال کرنا شروع کردینا چاہیے کیونکہ اس کے نتائج خوش کن ہیں اور یہ دوا سستی اور عام موجود ہے ۔ مگر اس کے بع خلاف بہت سے ڈاکٹرز ڈیٹا اور سروے دیکھنے کے متمنی ہیں تاکہ جان سکیں کہ اس کے نقصانات کیا ہیں اور کتنے فیصد یہ دوا جان بچانے میں کامیاب رہی ہے ۔