روس اور چین کی  مشترکہ بحری مشقیں شروع

240

چین اور روس کی مشترکہ بحری مشقوں کا آغاز بحیرہ جنوبی چین میں ہوگیا جو آئندہ 8 روز تک جاری رہیں گی۔

امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق چین اور روس کی مشترکہ بحری مشقیں خطے کی دو بڑی طاقتوں کی افواج کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون کی مظہر ہیں۔

چینی وزارت دفاع کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ان مشقوں کو جوائنٹ سی 2016 کا نام دیا گیا ہے جس میں بحری جنگی جہاز، آبدوزیں، نیوی ہیلی کاپٹرز اور جنگی طیارے حصہ لیں گے۔ان مشقوں پر بحریہ کی دفاعی صلاحیتوں کی جانچ کی جائے گی جبکہ امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے ان کی تیاری کا بھی جائزہ لیا جائے گا جبکہ اینٹی سب میرین ایکسرسائز کے ساتھ ساتھ دشمن کے جزیرے پر قبضہ کرنے کی بھی مشقیں کی جائیں گی۔

چینی بحریہ کے ترجمان لیانگ یانگ نے بتایا کہ یہ بحری مشقیں سالانہ پروگرام کا حصہ ہیں جن کا مقصد چین اور روس کے درمیان وسیع اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید فروغ دینا اور دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان دوستانہ تعلقات اور عملی تعاون کو مزید مستحکم کرنا ہے۔لیانگ کا کہنا تھا کہ ان مشقوں سے دونوں ملکوں کی بحریہ کو سمندر پر مشترکہ دفاعی آپریشنز کے حوالے سے باہمی رابطے کو بہتر بنانے کا بھی موقع ملے گا۔

واضح رہے کہ بیجنگ بحیرہ جنوبی چین کو مکمل طور پر اپنا حصہ کہتا ہے تاہم گزشتہ دنوں دی ہیگ کے عالمی ثالثی پینل نے ایک فیصلہ جاری کیا تھا جس میں چین کے اس دعوے کی نفی کی گئی تھی لیکن چین نے اس فیصلے کو مسترد کردیا تھا۔بحیرہ جنوبی کے پر فلپائن، جاپان اور دیگر ممالک بھی اپنا حق جتاتے ہیں جبکہ امریکا بھی متنازع حدود میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تشویش کا اظہار کرچکا ہے۔مذکورہ فیصلہ سامنے آنے کے باوجود چین نے کہا تھا کہ وہ بحیرہ جنوبی چین میں مصنوعی جزیروں کی تعمیر جاری رکھے گا اور اس خطے کی مسلسل فضائی نگرانی بھی جاری رکھے گا۔

واضح رہے کہ بحیرہ جنوبی چین اسٹریٹجک طور پر انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور ہر سال تقریبا 50 کھرب ڈالر کی تجارت اسی راستے کے ذریعے ہوتی ہے۔چین کا اصرار ہے کہ روس کی ساتھ ہونے والی یہ بحری مشقیں کسی خاص دشمن یا ملک کے خلاف نہیں تاہم ان مشقوں کے لیے منتخب کیے جانے والے مقام پر تنقید کی جارہی ہے۔گزشتہ ماہ امریکی پیسیفک فلیٹ کے کمانڈر نے دورہ چین کے موقع پر کہا تھا کہ یہ مشقیں کسی اور علاقے میں بھی ہوسکتی تھیں۔

اطلاعات کے مطابق ان مشقوں میں دونوں ممالک کے 18 جہاز، 21 طیارے اور 250 سے زائد فوجی حصہ لے رہے ہیں۔