حافظ صلاح الدین یوسف ربّ کے حضور پیش ہوگئے

421

معروف مفسرِقرآن، محقق وبزرگ عالمِ دین مصنف کثیرہ، امام العصر مشفق استاذ ومربی فضیلۃ الشیخ علامہ حافظ صلاح الدین یوسفؒ مینارہ نور تاریخ کاروشن باب بند ہوگیا۔ 11جولائی 2020 کے سورج کے ساتھ ساتھ علم عمل وفضل کا آفتاب بھی غروب ہوگیا۔ إِنَّا لِلّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعونَ مشہور مقولہ ہے العالم موت العالم یعنی ایک عالم کی موت محض ایک شخصیت کا دار فانی کوچ کرجانا نہیں بلکہ علم فضل کے خاتمے کی وجہ سے گویا پورے عالم پر موت طاری ہوجانا ہے۔ علامہ صلاح الدین یوسف 1945ء ریاست جے پور رجستھان میں پیدا ہوئے، ان کا شمار ایک عہد ساز شخصیت عالم اسلام میں ان چند نامور اور نابغہ روزگار اکابرین ملت میں ہوتا تھا جن کی ساری زندگی جہد مسلسل کی آئنہ دار رہی۔ انہوں نے حق وباطل کی کشمکش اور دین اسلام کی سربلندی کے لیے ہمیشہ درس وتدریس کے ساتھ قلم کے میدان میں بھرپور کردار ادا کیا۔ ان کی شخصیت صرف پاکستان وہندوستان میں نہیں بلکہ عالم اسلام کے اہل علم وفن کے نزدیک بلند مقام لائق تکریم سمجھی جاتی تھی۔ محترم شیخ صرف اہلحدیثوں کے عالم نہ تھے بلکہ یکساں طور پر ان کی رائے کا احترام ہر مکتبہ فکر کے اہل علم میں تھا انہوں نے اپنی پوری زندگی علم دین کی تجلیاں بکھیر نے میں صرف کیں، بلند حافظہ پایا تھا چوٹی کے اساتذہ مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانوی، مولاناقاری بشیر احمد تبتی، مولانا عبیداللہ بلتستانی، مولانا حافظ محمد اسحاق، علامہ حافظ عبدالرشید گوہڑی مولانا عبدالرشید مجاہد آبادی، مولانا عبدالحمیدؒ سے تفسیر، حدیث، فقہ، منطق، فلسفہ، اور ادیان باطل کے علوم کی تحصیل فرمائی آپ بیک وقت کئی علوم میں یدطولیٰ رکھتے تھے، علم وتحقیق تصانیف کے میدان میں بڑی مصروف بھرپور زندگی گزاری 100 زیادہ تصانیف ہیں چند کا ذکر کررہا ہوں۔
دنیا بھر میں تفسیر احسن البیان، نفاذ شریعت کیوں اور کیسے، توحید شرک کی حقیقت، مکمل اردو ترجمہ، دلیل الطالبین اردو ترجمہ وفوائد ریاض الصالحین للامام النووی، خلافت وملوکیت تاریخ وشرعی حیثیت، فکر فراہی اور اس کے گمرہ کن اثرات ایک علمی وتحقیقی جائزہ، جنازہ کے احکام ومسائل (انسائیکلو پیڈیا) اور مسئلہ ایصال ثواب، مفرور لڑکیوں کا نکاح اور ہماری عدالتیں، مسئلہ ولایت نکاح کا ایک جائزہ، رمضان المبارک فضائل فوائد وثمرات احکام ومسائل، فضائل عشرہ ذوالحجہ اور احکام ومسائل، حقوق مرداں وحقوق نسواں، عورتوں کے امتیازی مسائل وقوانین، اسلامی آداب معاشرت، واقعہ معراج اور اس کے مشاہدات، محرم الحرام اور سانحہ کربلا، ترجمہ حصن المسلم ودیگر تصانیف کی کثیر تعداد قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی خدمت اور دین اسلام، شعائر دین، سنت نبوی علی صحابہ افضل التسلیم اور صحابہ واہل بیت کی حرمت کے دفاع کا یہ عظیم سفر سات دہائیوں پر مشتمل ہے۔ علامہ حافظ صلاح الدین یوسف کو ان کی علمی صلاحیتوں تحقیقی بصیرت کے اعتراف میں حکومت نے وفاقی شرعی عدالت کے مشیر کا منصب عطا کیا سعودی حکومت وعلما میں ایک بلند مقام حاصل تھا ان کی موجودگی سے نعمت کا احساس طاری رہتا اور جن کے جانے کے اندیشوں سے راتیں بے چین ہوجاتیں، آہ وہ رفیق اعلیٰ سے جاملے ان کے اٹھ جانے سے ہونے والے دکھوں اور مشکلات کا اندازہ تو ان کو ہے جو ان سے پیچیدہ علمی عقدے حل کرایا کرتے اور مولانا حافظ صلاح الدین یوسف کمال انکساری سے بڑے بڑے مسئلے اللہ کی توفیق سے لمحوں میں کھو ل دیا کرتے۔
اہلحدیثوں کی علم وقلم کے امام کی مسند خالی ہوگئی وہ حدیث وسنت رسول کے ایک غیور خادم تھے مقام رسالت پر کبھی مفاہمت نہ کرتے اپنے دور کے ہر صاحب قلم ہی کو نہیں ہر دین کے مخلص خادم کو ان کی سر پرستی اور مسلسل براہ راست حوصلہ افزائی میسر آئی وہ عظیم تھے بڑے عظیم تھے ادنیٰ لوگو ں کو بھی یاد رکھتے ان کے علم وفضل کا سیل رواں تو جارہی رہے گا۔ علامہ حافظ صلا ح الدین یوسف کراچی تشریف لاتے تو اہلحدیث مرکز برنس روڈ پر امیرجماعت غربا اہلحدیث مولانا عبدالرحمن سلفی سے ملاقات فرماتے اس دوران وہ مجلس العلماء سے بھی خطاب فرماتے تھے میں نے ان کی محبت حوصلہ افزائی کو دیکھا مرحوم مولاناپروفیسر دلاورخان رحمانیؒ کے دینی اخباری مضامین پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا انہوں نے جماعت میں نئی روح ڈال دی ہے۔ حافظ صاحب اہل قلم کے قدر دان تھے میرے سسر بزرگ ممتاز صحافی سیدعبیداللہ قادری، اور ماموں محمد سعید مرحوم آگرے والے بہترین دوست اور بھائیوں کی طرح تھے۔ آخری ملاقات صحیفہ اہلحدیث کے دفتر میں ہوئی جس کا اہتمام ممتا ز صحافی کالم نگار حشمت اللہ صدیقی نے کیا تھا علامہ حافظ صلاح الدین یوسف کو اللہ تعالیٰ نے صاحب تسلیم رضا بنایا تھا تاہم موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ جب وقت مقرر پر آپہنچا تو پھر کسی کو مفر ممکن نہیں یہی معاملہ علامہ حافظ صلاح الدین یوسف کے ساتھ پیش آیا اپنے رب کے حضور مغفرت طلب کرتے ہوئے 75 برس کی عمر میں سوگواروں کو اشک بار چھوڑتے ہوئے عالم فنا سے دار بقا کی جانب کوچ کرگئے۔ نماز جنازہ مرکز اہلحدیث لارنس روڈ لاہور میں مولانا حافظ مسعود کی امامت میں ادا کی گئی ہزاروں افراد کی شرکت اس موقع سینیٹرعلامہ پروفیسر ساجد میر، مولانا عبدالرحمن سلفی، سینیٹرسراج الحق، چیرمین اسلامی نظریاتی کونسل قبلہ ایاز، مولاناحافظ عبدالغفار روپڑی، علامہ عبداللہ ناصر رحمانی، سید عبیداللہ قادری شیخ الحدیث مولانامحمود احمد حسن، علامہ حافظ ابتسام الٰہی ظہیر، مولانا عبدالعزیز نورستانی، مولانا ارشاد الحق اثری، مولانا پروفیسر حافظ محمد سلفی، علامہ زبیر احمد ظہیر، علامہ ڈاکٹر عامر عبداللہ محمدی، مولانا عبدالمالک مجاہد، سابق جسٹس شفیع محمدی، مولانازاہد ہاشمی الازہری، مولانا حافظ عبدالکریم، مولانا مفتی انس مدنی، مولانا شفیق پسروری، مولانا اسحاق شاہد، مولانا سید عبدالرحیم شاہ، مولانا ڈاکٹر خورشید احمد شیخ، مولانا مفتی یوسف قصوری، مولانا مفتی عبدالحنان سامرودی، مولانا مفتی منور ذکی، مولانا مفتی عبدالوکیل ناصر، مولانا یوسف نعیم، سمیت کثیر تعداد میں علما کرام وعلمی شخصیات نے اپنے تعزیتی پیغام کہا کہ ہم ایک عظیم نیک صالح علمی شخصیت سے محروم ہو گئے آخری وقت تک اپنی ذمے داری ادا کرتے ہوئے اللہ کی بارگاہ میں پہنچ گئے ہم اللہ کی رضا میں راضی ہیں اللہ اپنی رحمت سے جنت الفردوس میں اعلی مقام عطافرمائے اور ہمیں ان کے مشن کو تکمیل کی توفیق عطافرمائے۔ آمین