نیب سیاسی لائن کے دوسری طرف کھڑے  کرپٹ افرادکیخلاف تو کوئی قدم نہیں اُٹھاتا، سپریم کورٹ

386

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ نیب سیاسی لائن کے دوسری طرف کھڑے ایسے افراد جن پربڑے مالی کرپشن کے الزامات ہیں،ان کے خلاف تو کوئی قدم نہیں اُٹھاتا،نیب کے امتیازی رویے کے باعث اس کی غیرجانبداری سےعوام کا اعتماد اُٹھ گیا ہے۔

سپریم کورٹ نے مسلم لیگ ن کے رہنماؤں خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی خواجہ سلمان رفیق کی ضمانت کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے،سپریم کورٹ کی جانب سے  87صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس مقبول باقر نے تحریر کیا ہے۔

خیال رہے سپریم کورٹ نے 17 مارچ کو پیرا گون ہاؤسنگ سوسائٹی کیس میں گرفتارخواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق کی ضمانت 30،30 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کی تھی۔

جسٹس مقبول باقر نے فیصلے کے آخر میں حبیب جالب کے شعر کا حوالہ بھی دیا کہ

ظلم رہے اور امن بھی ہو، کیا ممکن ہے تم ہی کہو؟۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ نیب نے قانون کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں اور قانون کی کھلے عام خلاف ورزی کی، قانون اور آئین کا جائزہ لینے کے باوجود یہ راز ہے کہ یہ مقدمہ کیسے بنایا گیا؟

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نیب قانون ملک میں بہتری کے بجائے مخالفین کا بازو مروڑنے کے لیے استعمال کیا گیا اور نیب آرڈیننس اپنے اجراء سے ہی انتہائی متنازع رہا ہے۔

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ نیب سیاسی لائن کے دوسری طرف کھڑے ایسے افراد جن پربڑے مالی کرپشن کے الزامات ہیں،ان کے خلاف تو کوئی قدم نہیں اُٹھاتا جب کہ کچھ افراد کو گرفتار کرکے مہینوں اوربرسوں تک بغیر وجہ اذیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ نیب کے امتیازی رویے کے باعث اس کا اپنا تشخص متاثر ہوتا ہےاور اُس کی غیرجانبداری سےعوام کا اعتماد اُٹھ گیا ہے۔

سپریم کورٹ نے تحریری فیصلے میں کہا ہےکہ پاکستان کے عوام کوآئین میں دیے گئے حقوق نہیں مل رہے ہیں،ہماری نجات آزادی اظہار رائے میں ہے،جب تک ہم جمہوری اقدار کا کلچر پیدا نہیں کرتے امن کا قیام خواب ہی رہے گا۔

 تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ جب تک ہم جمہوریت اور آزاری کی قدر نہیں کرتے اقوام عالم میں اپنا مقام حاصل نہیں کرسکتے،آئینی عدالتیں آئین پاکستان کے تحفظ کی ضامن ہیں،عدالت نے ایگزیکٹو اور پبلک اتھارٹی کے اختیارات اور اعمال کا جائزہ لیا۔

سپریم کورٹ نے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ جمہوری اقدار،احترام، برداشت، شفافیت اورمساوات کے اصولوں کا مذاق اڑایا جارہا ہے،عدم برداشت، اقرباپروری، جھوٹے دھونس، خودنمائی ترجیحات بن چکی ہیں۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کرپشن پاکستانی معاشرے میں مکمل طورپر رچ بس چکی کی ہے۔