دینی مدارس جہالت کی فیکٹریاں؟

789

ماضی قریب میں آپ نے ایک جملہ سنا ہوگا کہ ’’دینی مدارس جہالت کی فیکٹریاں‘‘ ہیں۔ مئی 2015 کو دینی مدارس کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے حوالے سے وزارت مذہبی امور میں ایک اہم اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں پانچ معروف وفاق المدارس یعنی اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان کے تمام ذمے داران، وفاقی وزیر تعلیم بلیغ الرحمن، اُس وقت کے وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف، وزیر مملکت پیر امین الحسنات، وزیر اعظم کے مشیر قانون بیرسٹر ظفر اللہ خان، وفاقی سیکرٹری مذہبی امور، وفاقی سیکرٹری داخلہ، وفاقی سیکرٹری تعلیم، چاروں صوبوں کے سیکرٹری تعلیم اور ناچیز بحیثیت پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے چیئرمین، کچھ ماہر تعلیم اور بیورروکریسی کے افسران بھی موجود تھے۔ اجلاس کا ایجنڈا مدارس کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کی رجسٹریشن کے حوالے سے ایک پرفامہ پر بحث و تجویز جمع کرنا تھی۔ مگر ہوا کچھ یوں کہ اتحاد تنظیمات مدارس کے تمام ذمے داران نے اس پورے اجلاس کا بائیکاٹ یہ کہہ کر کردیا کہ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے ’’دینی مدارس کو جہالت کی فیکٹریاں‘‘ کہا ہے۔ ایک طرف حکومت چاہتی ہے کہ مدارس مین اسٹریم میں آجائیں اور دوسری جانب اس طرح کے بیانات دینا شرمناک عمل ہے۔ ہم اہل مدارس اس بیان پرشدید احتجاج اور مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ جب تک وہ اپنے اس بیان سے رجوع نہیں کرتے اور معافی نہیں مانگتے، تب تک ہم حکومت کے کسی اجلاس میں شریک نہیں ہوںگے۔ اور پھر کچھ وقت بعد موصوف وزیر پرویز رشید نے معافی اور معذرت بھی کرلی تھی۔
سال کی ابتداء میں کورونا جیسی وبا نے پاکستان میں بھی اپنے پنجے پوری طرح سے گاڑ لیے تھے اور اب اتنے ماہ گزرنے کے بعد بھی پاکستان بھر کے مختلف علاقوں میں اس وحشت و خوف کی صورتحال کے پیش نظر لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسے میں پاکستان کے تمام تعلیمی ادارے نہ صرف بند ہیں بلکہ عصری و دینی تعلیمی داروں کے امتحانات بھی ملتوی کر دیے گئے۔ تاہم پاکستان میں مدارس کے سب سے بڑے نیٹ ورک وفاق المدارس نے ایسے حالات میں بھی ہمت وجرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ ہم حکومتی تجاویز کے مطابق ایس او پیز کا خیال رکھتے ہوئے مدارس کے بچوں کے امتحان لیں گے۔
’’دینی مدارس جہالت کی فیکٹریاں ہیں‘‘۔ آج یہ جملہ مجھے کچھ اس طرح یاد آیا کہ وفاق المدارس سندھ کے ذمے دار مولانا طلحہ رحمانی نے ایک دن قبل مجھے فون کرکے کہا کہ آپ کا کچھ وقت درکار ہے، ہماری خواہش ہے کہ آپ کو وفاق المدارس کے تحت جاری مختلف امتحان گاہ کا صبح 7 بجے دورہ کرانا چاہتے ہیں۔ میں نے خوشی سے رضامندی ظاہر کی۔ مورخہ 16 جولائی بروز جمعرات وفاق المدارس کے امتحانات کا آخری دن تھا۔ پورے پاکستان میں اس وقت کم وبیش شعبہ تحفیظ، دراسات، دینیہ، تجوید للحفاظ و العلماء سے لے کر دورہ حدیث تک کے 4 لاکھ طلبہ و طالبات امتحانات دے رہے ہیں۔ میرے علاوہ وفد میں این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور دیگر معروف تعلیمی و سماجی و سیاسی زعماء شہر بھی شامل تھے، ہم نے تین اہم اور بڑے امتحانی سینٹرز کا دورہ کیا۔ مولانا طلحہ رحمانی وفاق المدارس کے امتحانات کے طریقہ کار اور انعقاد پر مسلسل بریفنگ دے رہے تھے۔ ہم نے تین سینٹرز کے دورے میں دیکھا کہ یہ مدارس جو عوام کے مخلصانہ عطیہ کے تعاون سے چلتے ہیں۔ اپنے کم تر وسائل کے باوجو د کس منظم انداز میں مکمل ایس او پیز کے ساتھ جاری حکومتی تجاویز کے مطابق عمل درآمد کو بہترین حکمت عملی کے ساتھ یقینی بنایا ہوا ہے۔ ایسا انتظام تو کسی بڑے شاپنگ مال اور کسی پرائیویٹ کمپنی میں بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ ویسے تو اب تقریباً تمام ہی شہری مدارس میں خود کار بجلی کے بڑے جنریٹر کا انتظام موجود رہتا ہے۔ لیکن حکمت عملی کے تحت امتحان گاہ کا انتخاب، مدارس کے کمروں کے بجائے مسجد کے بڑے ہال میں کیا جاتا ہے۔ تاکہ جگہ کھلی ہونے کے سبب روشنی اور تازہ ہوا کا سلسلہ جاری رہے۔ ہر طالب علم کے درمیان فاصلہ چھ فٹ سے زیادہ ہی تھا۔ ہر سینٹر کے نگران کی جانب سے امتحان دینے والوں کی مقرر جگہ کا رول نمبر کے حساب سے ایک مکمل نقشہ تیار کیا جاتا ہے، جو سینٹرز ہی میں آویزاں کر دیا جاتا ہے۔ وقت کی پابندی کا عالم یہ ہوتا ہے کہ ہر طالب علم اپنی مقرر جگہ پر سات بجے سے قبل ہی بیٹھ جاتا ہے اور سات بجے کاپی اور سوال نامہ کا پیپر تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ ایس او پیز کے مطابق سینٹرز میں اسپرے اور صفائی و ستھرائی کا شاندار اور مثالی انتظام بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ ہر طالب علم اور نگرانی پر مامور ہر استاد کے چہرے پر ماسک تھا، اور امتحان گاہ میں جگہ جگہ سنیٹائزر رکھنے کا اہتمام تھا۔ اگر کہیں کسی کے پاس ماسک نہیں ہے تو امتحان گاہ میں وفاق المدارس کے نگران عملہ کی جانب سے ماسک پیش کر دیا جاتا ہے۔ اس سال امتحانی نظم میں سالانہ پرچوں کے سوالوں کے حل میں کمی رکھی گئی ہے، یعنی چھ سوالوں میں سے صرف دو سوالوں کے جوابات کو درست سمجھا جائے گا۔ اس کے علاوہ پرچہ بنانے سے لے کر پہنچانے تک کا انتہائی راز داری کے ساتھ مکمل نظم اور ترتیب کا سلسلہ رہتا ہے۔ یعنی مکمل شفافیت موجود رہتی ہے۔
مولانا طلحہ رحمانی نے مزید بتایا کہ جیسے ہی امتحانات شروع ہو تے ہیں۔ ہم تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے حضرات کو اپنے امتحان گاہ کا دورہ کراتے ہیں اور یہ سلسلہ صرف سندھ کی سطح پر نہیں بلکہ پورے پاکستان میں جاری رہتا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین و ذمے داران، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، ایوان بالا سینیٹ کے اراکین، وزراء، ریٹائرڈ جج اور بیوروکریٹس، سماجی و رفاہی اداروں کے ذمے داران، اور خصوصی طور پر تعلیم کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے اداروں میٹرک بورڈ، انٹر میڈیٹ بورڈ، ٹیکنیکل بورڈز کے چیئر پرسن، مختلف سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر صاحبان اور صحافیوں کو بھی دعوت دیتے ہیں۔ اور ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ بین الاقوامی سطح کے غیر ملکی چینلوں نے بھی ہمارے اس امتحانی نظم کو دیکھ کر نہ صرف ہماری حوصلہ افزائی کی ہے۔ بلکہ برملا کہا گیا کہ جو امتحانی نظم ان دینی مدارس نے قائم کیا ہوا وہ مثالی ہے۔
میں نے اب تک دینی مدارس کے حوالے سے جتنے بھی مضامین وکالم تحریر کیے ہیں۔ ہمیشہ ہی اصلاحی اور مثبت انداز سے لکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے یہ ادارے اور ان اداروں میں زیر تعلیم طلبہ ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں، اور اثاثہ کا استعمال ہمیشہ فائدہ مند ہی رہتا ہے اگر کوئی اس کا استعمال درست کرے۔ وگرنہ ہمارے ملک کے اثاثوں کا غلط استعمال بھی جس بے دردی سے کیا جاتا رہا ہے اور کیا جاتا ہے یہ سب کے علم میں ہے۔ اس کی ایک مثال صرف یہ ہے کہ حکومت پاکستان اپنے سرکاری تعلیمی اداروں کے لیے ہر سال اربوں کا بجٹ مختص کرتی ہے۔ سرکاری اسکولوں کی حالت سے لے کر امتحانی سینٹرز تک کا حال دیکھ لیا جائے تو کوئی اچھی رائے قائم نہیں کی جاسکے گی۔ اور یہ حال کسی ذی شعور سے پوشیدہ بھی نہیں ہے۔ خصوصاً سرکاری اسکول کے سینٹرز میں شدت سے جو نقل کا رجحان پایا جاتا ہے وہ انتہائی شرمناک ہے۔ لیکن دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دینی مدارس کا نظم اور طریقہ امتحان میں نقل کا تصور ہی نہیں ہے۔ اور شاید ہی کسی نے یہ بات سنی ہو فلاں دینی مدرسہ میں نقل کرتے طلبہ پکڑے گئے ہوں اور سینٹرز کو سیل کر دیا گیا ہو۔ ان مدارس میں طلبہ جس طرح اپنے اساتذہ کا احترام کرتے ہیں۔ یہ عمل شاید ہی کسی اسکول یا کالج میں نظر آئے۔ شاید کسی طور نصاب کے بارے میں کچھ تحفظات ہو سکتے ہیں مگر جو نصاب پڑھایا جاتا ہے اور اس کا جو امتحان لینے کا جامع اور منظم طریقہ موجود ہے وہ یقینا قابل ستائش وتعریف ہے۔

ایک سینٹر میں وفاق المدارس صوبہ سندھ کے ناظم مولانا امداد اللہ یوسف زئی نے ہمیں بتایا کہ امتحان گاہ میں کوئی مدرس اپنی مرضی سے ڈیوٹی نہیں لگوا سکتا اور نہ ہی وہ اپنے ہی مدرسہ میں نگرانی پر مامور ہو سکتا ہے۔ ہر صوبے کے وفاق کے ذمے داران ایک نظم کے ساتھ اساتذہ کی سینٹرز میں ڈیوٹی تفویض کرتے ہیں۔ جس میں شفافیت رکھی جاتی ہے۔ اسی طرح پرچے چیک کرنے کا بھی ایک خاص معیار مقرر ہے۔ ہر پرچہ مضمون کے ماہر اساتذہ سے چیک کروائے جاتے ہیں۔ اور انہیں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کون سا پرچہ کس طالب علم کا ہے۔ لہٰذا کسی بھی طرح یہ ممکن نہیں کہ اْس استاد کے پاس اپنے یا کسی جاننے والے مدرسہ کے پرچے چیک کرنے کو مل جائیں۔ یہ نظام سوائے وفاق کے ذمے داران کے علاوہ مدارس کے مہتمم و اساتذہ سے بھی انتہائی خفیہ رکھا جاتا ہے۔ اگر ایک پرچے میں تین سوال ہیں تو تینوں سوال کو چیک کرنے کے لیے الگ الگ نگران مقرر ہوتے ہیں۔ جو اپنی نگاہ مہارت سے نمبرز دیتے ہیں۔ یعنی ایک مضمون کا مکمل پرچہ ایک نگران نہیں دیکھتا ہے۔ اس کے بعد اس طریقہ کار کو مزید شفاف بنانے اور جانچ پڑتال کے لیے امتحانی کمیٹی کے اراکین موجود ہوتے ہیں، جو ان شکوک و شبہات والے معاملے کو گہرائی سے دیکھتے ہیں اور فیصلہ جاری کرتے ہیں۔ یقینا اس بہترین نظام پر وفاق المدارس کے تمام ہی ذمے داران مبارکباد کے مستحق ہیں۔
میں سمجھتا ہوں مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے جو حضرات جب پہلی مرتبہ مدارس کے امتحانی نظام کو وزٹ کرتے ہیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو وہ ضرور یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہوجائیں گے کہ دینی مدارس میں نظم الاوقات، نظم الامور اور نظم امتحان کی مثال ایسی ہے جیسی شاید کسی مغرب کے تعلیمی ادارے کی ہو۔ سچ تو یہ ہے پاکستان بھر کے تمام مکاتب فکر کے مدارس کا یہ پورا نظام عوام کے مخلصانہ تعاون سے چلتا ہے، جب کہ دوسری جانب سرکار کے کروڑوں، اربوں کے مختص بجٹ سے بھی ایسا شفاف نظام دیکھنے کو نہیں ملتا۔ آخر میں غیر جانبدارانہ مشورہ ہے کہ دینی مدارس پر معترض حضرات کچھ بھی نہ کریں، بس غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے سرکاری امتحان گاہ اور دینی مدارس کے امتحان گاہ کے نظم الامور اور طریقہ امتحان کو دیکھ لیں، اور ان کے سسٹم کو سمجھ لیں، تو میرا خیال ہے کہ کم از کم اس بات پر ضرور قائل ہوجائیں گے کہ سرکاری بورڈز دینی مدارس کے وفاق کا امتحان لینے کا طریقہ شفاف اور مثالی نظر آئے گا۔ لیکن جو لوگ ایک خاص ذہنیت کے ساتھ نفرت آمیز لہجہ اختیار کرتے ہیں، ان کی زبان سے اصلاح اور خیر کے کلمات کے بجائے یہی جملے نکلیں گے یہ ’’دینی مدارس جہالت کی یونیورسٹیاں ہیں‘‘۔