فیس میں اضافہ چاہیے تو ہماری زبان بننا ہوگا

333

جب کوئی بات معمول بن جائے تو وہ بے اثر ہوجاتی ہے۔ جب نجی ٹی وی چینل بنائے گئے تو لوگوں کی توجہ سرکاری ٹی وی سے محض اس لیے ہٹ گئی کہ وہاں ان کے لیے نہ صرف بہت سارے تفریحی پروگرام موجود ہونے کی توقعات تھیں بلکہ ان کو اس بات کا یقین بھی تھا کہ ان چینلوں سے جو کچھ بھی اطلاعات اور خبریں ان تک پہنچیں گی وہ منفرد بھی ہوںگی اور مصدقہ بھی لیکن کچھ ہی عرصے بعد ان کو اس بات کا احساس ہو گیا ان کی سوچ غلط تھی کیونکہ سرکاری چینل پر دکھائے جانے والے ڈراموں اور مختلف مزاحیہ پروگراموں کا جو معیار تھا، نجی چینلز ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے البتہ ایک فرق انہیں ضرور محسوس ہوا کہ سرکاری ٹی وی کی خبریں اور بیش تر پروگرام سرکار کی سوچ کی ترجمانی کے علاوہ اور کچھ نہیں، جبکہ نجی ٹی وی کسی حد تک موقع و محل کے حساب سے اپنی مرضی بھی چلالیتے ہیں۔ پھر ہوا یوں کہ جوں جوں میڈیا ایک قوت بنتا گیا اور اسے یہ احساس ہونے لگا کہ وہ بہت سارے معاملات میں بڑے بڑے اہم کردار ادا کرسکتا ہے تو اس نے اپنی اہمیت کو مزید مستحکم کرنے کے لیے، سچ اور جھوٹ، دونوں کو نشر کرنے یا چھپانے کی قیمت وصول کرنا شروع کر دی اس طرح یہ نجی چینلز بھی آزاد نہیں رہے بلکہ مادر پدر آزاد بنتے چلے گئے اور مختلف حلقہ اثر کے تحت اپنی اپنی پالیسیاں بنا بیٹھے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ کسی بھی چینل کو سننے اور دیکھنے کے بعد بآسانی اس بات کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ کون سا چینل کس کی زبان بول رہا ہے۔
سرکاری ٹی وی کے متعلق کیونکہ عوام کی رائے پہلے ہی اچھی نہیں تھی اس لیے ہوا یوں کہ اب شاید ان علاقوں میں جہاں پر نجی چینلز کے سگنلوں کی پہنچ نہیں ہے یا جہاں لوگ سرکار کی کارکردگی کے متعلق اچھا ہی سننا پسند کرتے ہیں، وہاں تو سرکاری ٹی کو سنا اور دیکھا جاتا ہے، باقی مقامات پر کبھی کوئی اتفاقیہ سرکاری ٹی وی دیکھ لے تو دیکھ لے ورنہ اب عوام زیادہ تر اپنی پسند کے نجی چینلز ہی دیکھنا زیادہ پسند کرنے لگے ہیں۔ جو محکمہ یا ادارہ بھی سرکار کی تحویل میں ہے، اس کا حال ویسے ہی ابتر ہے اس پر تنخواہوں اور مراعات کے بہت زیادہ عدم توازن نے سرکاری ٹی وی سے ان سارے افراد کو بہت دور کردیا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے زبردست صلاحیتیں عطا کی ہوئی تھی۔ چند ہزار روپوں کی لگی بندھی آمدنی کے مقابلے میں ہر فرد کی اعلیٰ صلاحیتوں کے عوض اگر کسی کو بہت ہی ہیڈسم تنخواہ یا مراعات مل سکتی ہوں تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ نہایت قلیل آمدنی کے عوض اس کار کردگی کا مظاہرہ کر سکے جو نجی ٹی وی چینل پر اپنی صلاحیتوں کے عوض حاصل کی جا سکتی ہیں۔
عمران خان اور ان کی ٹیم کو سرکاری ٹی وی اور اس کی کارکردگی سے گلہ اور پریشانی تو ضرور ہے لیکن ان کو اس کے اسباب پر بھی تو گہری نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ اب تک جو بات سامنے آ رہی ہے وہ یہی ہے کہ ٹی وی ہو تو سرکار کا لیکن وہ سرکار کی ایسی کارکردگی جو دنیا میں موجود ظاہری اور باطنی آنکھیں رکھنے والا نہ دیکھ سکے، سرکاری ٹی وی کو چاہیے کہ وہ عوام کو انہیں اتنا شفاف کر کے دکھائے کہ ہر زبان پر واہ وا ہو اور ہر جانب تحسین و آفرین کے نعرے بلند ہونا شروع ہو جائیں۔
یوں تو اب کوئی دن بھی ایسا نہیں جاتا کہ وزرا اور مشیران کے اجلاس منعقد نہ ہوتے ہوں لیکن کل ہونے والا اجلاس اس لحاظ سے منفرد تھا کہ خان صاحب اور ان کی ٹیم کو سرکاری ٹی وی کی کارکردگی تیسرے درجے سے بھی کم دکھائی دی۔ خان صاحب کو اور ان کی ٹیم کو سرکاری ٹی وی کا اور کوئی پہلو تو ایسا نظر نہیں آیا جس کو بنیاد بنا کر وہ سرکاری ٹی وی کو بہت زیادہ دباؤ میں لے سکتے البتہ جس انداز میں خان صاحب یا ان کی ٹیم سوچتی ہے اس کے مطابق انہیں سرکاری ٹی وی اپنی کارکردگی دکھاتا ہوا نظر نہیں آیا۔ ایک سرکاری ٹی وی اگر حکومت کی ’’اعلی‘‘ کارگردی کو اجاگر نہیں کر سکتا تو پھر اس کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے لہٰذا اس کو ’’سلیس‘‘ اردو میں سمجھا دیا جائے کہ اسے حکومت کی کارکردگی کو عوام کے دلوں میں بہر صورت اجا گر کرنا ہوگا۔ اس سلسلے کی پہلی سزا کے طور پر جو کام کر دیا گیا وہ یہ تھا کہ ایک سرکاری چینل جو سخت مالی بد حالی کا شکار تھا، اس کی بڑھائی گئی فیس کے اعلان کو مؤخر کر دیا گیا اور چند ہفتوں میں اپنی کارکردگی دکھانے حکم سنا دیا گیا۔
کابینہ کے اجلاس میں سرکاری ٹی وی کی اچھی کارکردگی کی تشریح بھی کر دی گئی ہے اب دیکھنا یہ کہ وہ چند لفافی نجی ٹی ویوں کے سے انداز میں حکومت کی ’’اعلیٰ‘‘ کارکردگی کو اجاگر کرنے میں کتنا کامیاب ہوتا ہے کیونکہ سرکاری ٹی وی کی 35 روپے ماہانہ فیس کو 100 روپوں تک بڑھانا ’’کارکردگی‘‘ سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ اب اپنی نیّا کو آگے ٹھیلنے کے لیے اگر عوام کا لہو پی کر پی ٹی وی اپنے آقاؤں کو خوش کرسکتا ہے تو ٹھیک ورنہ فیس بڑھانے کا فیصلہ مؤخر کیے جانے سے منسوخی کی جانب بھی بڑھ سکتا ہے۔