مرکزی حکومت قبائلی علاقوں میں فاٹا اصلاحات فوری نافذ کرے ،سراج الحق

262

امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹرسراج الحق نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ قبائلی علاقوں میں فاٹا اصلاحات فوری نافذکی جائیں ،فاٹا کے عوام اصلاحات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے مقررہ دس سال پر مطمئن نہیں،فاٹا میں فوری طور پر مردم شماری کا عمل شروع کیا جائے کیونکہ مردم شماری نہ ہونے کی وجہ سے فاٹا میں ترقی کا پہیہ رکا ہوا ہے ،پرمٹ اور راہداری سسٹم کرپشن کی جڑہے جس کا فوری خاتمہ ضروری ہے،سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات خوش آئند ہیں لیکن فاٹا میں مردم شماری کے بغیر قبائلی علاقوں کی ترقی ناممکن ہے، 2018کے الیکشن سے قبل فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کیا جائے تاکہ صوبائی اسمبلی میں فاٹا کو نمائندگی مل سکے ،ملک بھر کے کالجز اور یونیورسٹیوں میں فاٹا کے طلبا ء4 کے لئے کوٹہ بڑھایا جائے اور قبائلی علاقوں میں خواتین یونیورسٹیاں اور میڈیکل کالجز بنائے جائیں،نادرا 14دن کے اندربلاک شناختی کارڈوں کی چھان بین کرکے معاملہ نمٹا دے اگرچودہ دن میں معاملہ حل نہ کیا گیا تو یکم اکتوبر کو تمام صوبائی ہیڈکوارٹرز کے سامنے دھرنے دئے جائینگے۔

 جمعہ کو المرکز الاسلامی پشاور میں فاٹا سیاسی اتحاد کے قائدین کے اجلاس کی صدارت کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ فاٹا سیاسی اتحاد نے گذشتہ کئی ماہ سے نہ صرف قبائلی علاقوں کیلئے بلکہ پاکستان اور آئندہ نسلوں کیلئے ایک بہت بڑی جدوجہد کی ہے اور وحدت و یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے جس پر فاٹا سیاسی اتحاد کے قائدین خراج تحسین کے مستحق ہیں انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقہ جو اس وقت 29ہزاردو سو مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے اور گذشتہ کئی سال سے شورش زدہ ہے، قیام پاکستان سے قبل اور قیام پاکستان کے بعد بھی اس علاقہ نے ایک ڈھال کا کردار ادا کیا ہے اور ہمیشہ بیرونی قوتوں کا ہر حملہ ان لوگوں نے اپنے اوپر برداشت کیا ہے اوردشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔

سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ہم اعتراف کرتے ہیں کہ گذشتہ ستر سالوں میں قبائل نے پاکستان کا دفاع کیا ہے اور اس سے پہلے ان لوگوں نے متحدہ ہندوستان کو محفوظ رکھنے کیلئے اپنا کردار ادا کیا تھالیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ گذشتہ دوسو سالوں میں اس دفاعی حصار کا کسی نے خیال نہیں رکھا یہی وجہ ہے کہ یہاں معاشی ،سیاسی اور نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے انہوں نے کہاکہ دو نومبر2015کو اسلام آباد میں قبائلی علاقوں کی تمام سیاسی جماعتوں کی کانفرنس میں سب نے مرکزی حکومت کے سامنے ایک مشترکہ ایجنڈا رکھا کہ قبائل مزید ایف سی آر کے کالے قانون کو برداشت نہیں کرینگے ایف سی آر ظلم، غلامی اور نفرت کی ایک علامت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ اس کانفرنس کے بعد انہی سفارشات کی روشنی میں حکومت نے ایک کمیٹی قائم کی اور ہم بغیر کسی بخل کے کہتے ہیں کہ سرتاج عزیز کمیٹی نے قبائلی علاقوں میں جاکر زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملاقاتیں کیں سیاسی و غیر سیاسی لوگوں سے اور وکلاء سےچار ملاقاتیں کیں لہٰذا بحیثیت مجموعی قبائلی عوام اور انکے یہ نمائندے اس رپور ٹ کو سپورٹ کرتے ہیں جس کو سرتاج عزیز نے قومی اسمبلی میں پیش کیا ہے،انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ قبائلی عوام کے اس جرگے اور سیاسی اتحاد نے جو جدوجہد کی ہے وہ اب رنگ لا چکی ہے اور جدوجہد کا ایک دور مکمل ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ ہم امن اور اصلاحات کی طرف سفر کیلئے کچھ تجاویز پیش کرتے ہیں اور ہم مثبت انداز میں اس سفر کو آگے بڑھانے کی خواہش رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ میں قبائلی علاقوں کی جو تعداد ہے وہ نصف سے بھی کم بتائی گئی ہے اور اسکی شائد وجہ یہی ہے کہ قبائلی علاقوں میں مردم شماری کبھی نہیں ہوئی اس وجہ سے کبھی آبادی کی تعداد پچاس لاکھ بتائی جاتی ہے اور کبھی 48لاکھ بتائی جاتی ہے لیکن یہ تعداد انتہائی کم ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اگرقبائلی علاقوں کی مردم شماری ہوجاتی ہے تو یہ تعداد دو کروڑ سے زیادہ بنتی ہے،انہوں نے کہا کہ گذشتہ آپریشن کے نتیجے میں جب نقل مکانی ہوئی تو پچیس لاکھ کے قریب افراد نے نقل مکانی کی جن میں اب بھی بہت سارے لوگ گھروں سے باہر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ قبائل کی ترقی کیلئے مردم شماری کرنا وقت کا تقاضا ہے ، آج تمام سیاسی قائدین نے متفقہ فیصلہ کیا ہے اور انکا مطالبہ ہے کہ قبائل کیلئے ملک بھر کے کالجز اور یونیورسٹیوں میں کوٹہ بڑھایا جائے اور قبائلی طلباءکی تعداد بھی بڑھائی جائے۔کوٹہ میں دی گئی پہلی تعداد اتنی کم ہے قبائلی علاقوں کی ضروریات کو پورا ہونا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ میں نہ خواتین کی علیحدہ یونیورسٹیوں کا ذکر ہے نہ میڈیکل کالج نہ انجینئرنگ یونیورسٹی کا ذکر ہے تو ظاہر ہے تعلیم کے بغیر ترقی تو ایک افسانہ ہی لگتا ہے۔

امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اٹھارہ نکاتی ایجنڈے میں پاکستان بھر میں قبائلی طلباء4 کیلئے کوٹہ بڑھانے کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں میں اپنا میڈیکل کالج،انجینئرنگ یونیورسٹی،اور خواتین یونیورسٹیاں قائم کیں جائیں تاکہ قبائلی خطہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے،انہوں نے کہا کہ اصلاحات کیلئے جو پانچ سے دس سال کا وقت رکھا گیا ہے اس سے خطرہ یہ ہے کہ حکومتوں کے بدلنے کے ساتھ ساتھ یہ منصوبہ بھی نہ بدل جائے اس لئے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں اور عوام کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ اس اہم معاملے کو جنگی بنیادوں پر حل کیا جائے 2018کے الیکشن سے قبل قبائلی خطے میں مردم شماری کرائی جائے اور فاٹا کو صوبے میں ضم کیا جائے تاکہ 2018کے انتخابات میں قبائل کو صوبائی اسمبلی میں نمائندگی مل سکے،انہوں نے کہا کہ گذشتہ آپریشنوں اور بدامنی کی وجہ سے فاٹا سماجی ،معاشی اور نفسیاتی طور پر تقریبا تباہ ہوچکا ہے بڑے بڑے باغات ختم ،بازار ختم ہوچکے ہیں اس لئے قبائل کے اس جرگے نے آج مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر فاٹا کوترقی دینے کیلئے پانچ سوبلین کا ایک پیکیج دیا جائے۔انہوں نے کہا کہ اگر چہ این ایف سی ایوارڈ میں تین فیصد کی بات ہوئی ہے لیکن وہ بعد کی بات ہے فوری طور پر پانچ سو بلین روپے کا پیکیج فاٹا کی ترقی کیلئے ضروری ہے پاکستان کیلئے یہ کوئی مشکل بات نہیں اس سے احساس پیدا ہوگا کہ ہمارے زخموں پر مرہم پٹی رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

سراج الحق نےکہا کہ میں پاکستان کی بیس کروڑ آبادی کی طرف سے اور پوری سیاسی قیادت کی طرف سے انکو یقین دہانی کراتا ہوں کہ انہوں نے ترقی اور امن کی جانب جو سفر شروع کی ہے اس میں ہم انکی پشت پر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا کے اس سیاسی جرگے اور عوام کا مطالبہ ہے کہ انکے جملہ معاملات فاٹا سیکرٹریٹ کی بجائے صوبائی سیکرٹریٹ کے حوالے کئے جائیں تاکہ انکو یقین ہوجائے کہ واقعی قبائلی عوام انقلاب کی طرف بڑھ رہے ہیں ،انہوں نے کہا کہ جنرل الیکشن سے قبل بلدیاتی انتخابات بھی ضروری ہیں اور یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ قبائل سے کئے گئے وعدے نبھائے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقے معدنیات سے مالا مال ہیں یہ پاکستان پر بوجھ نہیں پاکستان کیلئے سہارا ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت قبائلی عوام کے لاکھوں شناختی کارڈ بلاک ہیں اور اس وجہ سے شہری اذیت سے دوچار ہیں انکی تنخواہیں بند ہیں ،نہ سفر کرسکتے ہیں نہ ملازمتوں کیلئے درخواست دے سکتے ہیں ہم یہ چاہتے ہیں کہ نادرجانچ پڑتال کرے لیکن یہ تو ظلم ہے کہ باپ کا شناختی کارڈ ہے اور وہ پولٹیکل ایجنٹ کے جرگوں میں شرکت کرتے ہیں لیکن اسکے بیٹے کا شناختی کارڈ بلاک ہے ،انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ پورے پاکستان میں ہے سالوں سے لوگ اسلام آباد اور پشاور میں نادرا کے دفاتر کے طواف کرتے چلے آرہے ہیں اور شناختی کارڈ بحال نہیں ہوسکے اس لئے میں نے اعلان کیا ہے کہ چودہ دن کے اندراندر نادرا یہ مسئلہ حل کردے اگر نادرا نے یکم اکتوبر تک یہ مسئلہ حل نہ کیا تو پھر ہم یکم اکتوبر کو تمام صوبائی ہیڈکوارٹر کے سامنے دھرنے دیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم اپنے شہریوں کو مزید اس اذیت میں مبتلاء4 نہیں دیکھ سکتے۔