سید علی گیلانی کیوں خاموش ہیں؟

411

کل جماعتی حریت کانفرنس کشمیری مجاہدین کی امید اور آس سمجھی جاتی تھی، یہ سیاسی پلیٹ فارم عالمی سطح پر اقوام متحدہ کے لیے اہمیت کا حامل تھا اور او آئی سی نے اسے غیر معمولی اہمیت دے رکھی تھی۔ کشمیر کے لیے رابطہ گروپ کی تشکیل اسی کی محنت اور کاوشوں کا نتیجہ تھی، آج سے ستائیس سال قبل 1993 میں میر واعظ عمر فاروق کی سربراہی میں یہ سیاسی پلیٹ فارم اس وقت وجود میں آیا تھا جب نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید کشمیری رہنماؤں نے طے کیا کہ وہ سب مل کر ایک پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد کریں گے تو کشمیر کے مسلمانوں میں امید پیدا ہوئی کہ شاید ان کو ایسی قیادت میسر آ گئی ہے جو ان کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے سیاسی جدوجہد کے ساتھ حق خود ارادیت کی منزل پا لے گی۔ دسمبر 1992 میں کشمیر کی جامع مسجد کے امام میر واعظ فاروق کے قتل کے بعد ان کے انیس سالہ صاحبزادے عمر فاروق میر واعظ کے عہدے پر فائز ہوئے اور اپنی رہائش گاہ پر آزادی پسند کشمیری رہنمائوں کو اکھٹا کیا تاکہ مشترکہ جدوجہد کا آغاز ہو سکے اس تناظر میں 1993 میں تشکیل پانے والی آل پارٹیز حریت کانفرنس اتنی مقبول ہوئی کہ اسے آزادی پسند کشمیری عوام کا حقیقی نمائندہ سیاسی پلیٹ فارم کا درجہ مل گیا جو دنیا بھر میں کشمیریوں کا موقف پیش کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔ اس اتحاد کے اہم رہنمائوں میں سید علی گیلانی (جماعت اسلامی)، پروفیسرعبد الغنی بٹ (مسلم کانفرنس) اور عبدالغنی لون (پیپلز کانفرنس) اور شبیر شاہ، اور عباس انصاری شامل تھے۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما یاسین ملک جو پاکستان اور انڈیا دونوں سے آزادی کے حق میں تھے وہ اس تنظیم کا باقاعدہ حصہ نہ بنے مگر سیاسی طور پر اس کے اتحادی بن گئے تاہم بعد میں وہ اس کا حصہ بھی بنے۔ اس طرح ایک ایسا پلیٹ فارم وجود میں آ گیا جسے کشمیری عوام کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی کوششوں سے اسے او آئی سی میں مبصر کا درجہ ملا تاہم کچھ سال سے یوں لگ رہا ہے کہ حریت کانفرنس کہیں غائب ہی ہو گئی ہے۔
گزشتہ سال 5 اگست کو کشمیر کی علیحدہ آئینی حیثیت ختم کردی تو اس کی طرف سے کوئی مزاحمت سامنے نہیں آئی، مقبوضہ کشمیر کی حالیہ سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ کشمیر کی آزادی کی تحریک کے لیے1987کے بدترین انتخابات مسلح جدوجہد کا باعث بنے تھے، حریت کانفرنس میں شامل بیش تر رہنماء 1987 میں ہونے والے کشمیر کے ریاستی انتخابات میں شریک تھے تاہم انہیں بدترین دھاندلی کر کے شکست سے دوچار کیا گیا جس کے بعد انہوں نے آئندہ انتخابی سیاست کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا اور اس دوران کشمیر میں عسکریت پسندی کو فروغ ملا رد عمل میں 1990 میں انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا اور آزادی کی مسلح جدوجہد تیز ہوگئی دوسری طرف اس وقت سید علی گیلانی، شبیر شاہ، عبدالغنی لون سمیت تمام اہم کشمیری رہنما بدستور بھارت کی قید میں تھے یہ کشمیریوں کے لیے بہت اہم دور تھا اسی دور میں بھارت نے دنیا بھر میں سفارت کاری کی‘ امریکا سمیت بڑی قوتیں اس کی ہم نوا بن گئیں اور ہماری حکومتوں نے اس محاذ پر کمزوری دکھائی۔
حریت کانفرنس کا بس ایک نکاتی ایجنڈا تھا کہ انڈیا سے آزادی کیسے حاصل کرنی ہے۔ حریت کانفرنس کو عوام میں مقبولیت ملی اور سفارتی محاذ پر بھی حریت کانفرنس کامیاب تھی اور حریت کانفرنس کو او آئی سی کے کشمیر رابطہ گروپ کے اجلاس میں بلایا جاتا رہا ہے اس کے علاوہ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کی یوم پاکستان اور یوم آزادی کی تقریبات میں حریت رہنمائوں کو خاص طور پر مدعو کیا جاتا رہا ہے۔ حریت کانفرنس کے رہنمائوں نے پاکستان کے دورے بھی کیے ہیں۔ یاسین ملک کے علاوہ بلال غنی نے راولپنڈی میں شادی کی، مشال ملک یاسین ملک کی اہلیہ ہیں 1993 کے ٹھیک پندرہ سال بعد ایک تبدیلی آئی 2008 میں انڈیا اور جموں و کشمیر کی ریاستی حکومت کی جانب سے ہندو شری امرناتھ شرائن بورڈ کو زمین منتقل کرنے کے فیصلے کے خلاف کشمیر بھر میں مظاہرے شروع ہو ئے جو 1990 کے بعد سب سے بڑے مظاہرے تھے اس میں حریت رہنما سید علی گیلانی نے اہم کردار ادا کیا اور ان کی مقبولیت عروج پر پہنچ گئی اس کے بعد حریت کانفرنس میں تقسیم شروع ہوئی 2003 میں اس وقت شدت اختیار کر گئے جب جنرل پرویز مشرف نے کشمیر کے مسئلے کے لیے جو چار نکاتی فارمولہ پیش کیا سید علی گیلانی نے یہ فارمولا مسترد کر دیا۔ حریت کانفرنس کی تقسیم برسوں قائم رہی حتی کہ 2016 میں حزب المجاہدین کے سرکردہ کمانڈر برہان وانی کی شہادت کا واقعہ ہوا تو میر واعظ عمر فاروق، سید علی گیلانی اور یاسین ملک نے مل کر ایک نیا اتحاد تشکیل دیا جسے جوائنٹ ریزسٹنٹ لیڈر شپ یا جے آر ایل کا نام دیا گیا۔ تاہم اس سال جون میں سید علی گیلانی نے حریت کانفرنس سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے صورتحال پھر نوے کی دہائی کی طرف جا چکی ہے اور ایک سیاسی خلا پیدا ہو گیا ہے جس کا نتیجہ انارکی ہوگا۔ ایسا زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا ایسے میں انڈیا پھر مجبور ہو گا کہ سیاسی قیادت سے بات کرے انہیں جیلوں سے رہا کرے اور انہیں عوام کی نمائندگی کا حق دے تاکہ معاملات آگے بڑھ سکیں۔