پاک سعودی تعلقات کا پس منظر اور پیش منظر

288

وزیر اعظم پاکستان کے آفس نے ایک بیان میں کہا کہ ’’دونوں وزرا خارجہ نے ملاقات کے دوران پاکستان کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات کی اہمیت پر زور دیا‘‘۔ انہوں نے موجودہ چیلنجز کا مقابلہ کرنے، تناؤ کم کرنے، اور ایسے ماحول کو فروغ دینے کے عزم میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حمایت کا اعادہ کیا جس سے امن و سلامتی کو یقینی بنایا جاسکے‘‘۔ ملاقات کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے عالمی برادری پر زور دیا کہ ’’وہ تنازع جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے غیر قانونی اور جارحانہ اقدامات روکنے اور انہیں تبدیل کرانے کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالے‘‘۔ یہ خبر بھی میڈیا کے بعض حصوں میں نمایاں ہوئی کہ ’’سعودی عرب نے تنازع جموں و کشمیر کے معاملے پر اضافی اقدامات اٹھائے ہیں اور رواں سال کے آغاز میں سعودی عرب نے تنازع جموں وکشمیر پر بات کرنے کے لیے شوری کونسل کے اسپیکر کے ذریعے اسلامی ممالک کی پارلیمان کے سربراہان کی کانفرنس منعقد کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ اس سے عوامی اور سرکاری سطح پر قبولیت عام ملتی، یہ مسئلہ پوری شدت سے دنیا میں اجاگر ہوتا جس کے نتیجے میں بالخصوص اسلامی ممالک کی سطح پر نئے امکانات اور اقدامات کی راہیں ہموار ہوتیں۔ لیکن پاکستان کی جانب سے یہ تجویز مسترد کردی گئی جس پر سعودی عرب انگشت بدنداں رہ گیا۔ رواں سال اگست میں وزیراعظم عمران خان نے الجزیرہ چینل کو انٹرویو میں پاکستان کی مدد کرنے میں سعودی عرب کے کردار کو تسلیم کیا اور کہا کہ ’’سعودی عرب نے نہ صرف یہ کہ انتہائی مشکل معاشی بحران میں ہماری مدد کی بلکہ ماضی میں بھی جب کبھی پاکستان کو مشکل صورتحال کا سامنا ہوا، سعودی عرب ہماری مدد کرتا رہا ہے‘‘۔
ان کا مزید فرمانا تھا کہ ’’سعودی عرب ہمارے ان مشکل دنوں کا دوست ہے جن کا ہم نے سامنا کیا اور سعودی عرب میں تقریباً تیس لاکھ پاکستانی کام کر رہے ہیں‘‘۔ اسلامی تعاون تنظیم (او۔ آئی۔ سی) کے سعودی عرب کی گرفت میں ہونے کے تبصرے بھی سامنے آئے۔ یہ حقیقت پیش نظر رکھے بغیر الزامات کی یک طرفہ ژالہ باری کی گئی کہ یہ ایک خود مختار اسلامی بین الاقوامی تنظیم ہے جس کی سربراہی وقتاً فوقتاً مختلف اسلامی ممالک کی نامور شخصیات کرتی ہیں۔ یہ ادارہ سعودی عرب کے شہر جدہ میں واقع ہے۔ اس ادارے نے کشمیری عوام کی حمایت میں اپنا کردار ادا کیا۔ 1994 میں جدہ میں تنازع جموں و کشمیر پر رابطہ کمیٹی قائم کی گئی۔ یہ کمیٹی متواتر اجلاس منعقد کرتی ہے۔ آخری مرتبہ اس کا اجلاس 22 جون 2020 کو منعقد ہوا تھا۔ جموں وکشمیر سے متعلق او۔ آئی۔ سی رابطہ کمیٹی نے وزرائے خارجہ کی سطح پر اجلاس منعقد کیا جس میں سعودی عرب، پاکستان، آذربائیجان، ترکی اور نائیجر کے وزرائے خارجہ شریک ہوئے اور تنازع جموں وکشمیر کے منصفانہ حل کے لیے آواز بلند کی۔ پانچ اگست 2019 کے نئے تنازعے کے آغاز سے او۔ آئی۔ سی رابطہ کمیٹی نے مسئلہ کشمیر پر مجموعی طور پر تین اجلاس منعقد کیے۔ ان میں سے دو وزرائے خارجہ کی سطح پر تھے جن میں کشمیریوں کے جائز حقوق کی حمایت میں بھارت کے خلاف سخت بیانات جاری کیے گئے۔ شہدائے کشمیر سے متعلق ایک اور کمیٹی بھی قائم ہے جس کا اجلاس وقتاً فوقتاً جدہ میں منعقد ہوتا ہے۔ اس کمیٹی کا آخری مرتبہ اجلاس 13 جولائی 2020 کو ہوا تھا جس میں قونصل جنرل خالد مجید اور اسلامی تعاون تنظیم (او۔ آئی۔ سی) کے مستقل مندوب رضوان شیخ نے مہمانان خصوصی کے طور پر شرکت کی تھی۔ کشمیر کمیٹی کے ارکان بھی اس اجلاس میں شریک تھے۔ شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے قونصل جنرل خالد مجید نے کہا کہ جدہ میں کشمیر کمیٹی ایک موثر جہت ہے اور مسئلہ کشمیر کی آواز اٹھانے میں فعال کردار ادا کرتی ہے۔ اب ذرا اس امر کا جائزہ لینا چاہیے کہ تنازع جموں وکشمیر کے حوالے سے پاکستان کیا مطالبہ کر رہا ہے؟ اور اس کے مطالبے کی دیگر اسلامی دنیا کو کیا سمجھ میں آرہا ہے؟ پاکستان تنازع جموں وکشمیر کے پرامن اور منصفانہ حل کی حمایت کے اپنے موقف پر زور دیتا ہے اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قرار دادوں کے مطابق کشمیری عوام کے حقوق، امنگوں اور حق خودارادیت کی حمایت کرتا ہے۔ اس کا یہ موقف ہے کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی منصفانہ حل تلاش کیے بغیر جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن وسلامتی کا قیام ممکن نہیں، ایسا حل جو تنازع کے فریقین کے لیے قابل قبول ہو۔ پاکستان اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ بات چیت کے ذریعہ پرامن طریقے سے مسئلہ کا حل تلاش کیا جائے اور امید رکھتا ہے کہ بھارت بھی مثبت جواب دے گا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تصفیہ طلب مسائل کو پر امن طریقے سے حل کیا جاسکے جن میں سرفہرست مسئلہ کشمیر ہے۔ اب غور کرنے والی بات یہ ہے کہ کیا سعودی اور پاکستان کے موقف میں کوئی فرق ہے؟ در حقیقت سعودی عرب اور پاکستان کے خیالات، مطالبات اور تمام بیانات میں مکمل اتفاق رائے ہے۔ تنازع جموں وکشمیر پر پاکستان کے موقف، سیاسی و سفارتی ذرائع سے حل سمیت مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں پر عمل درآمد کے مطالبات کی سعودی عرب حمایت کرتا ہے۔ تجزیہ کرنے سے البتہ ایک بات ضرور واضح ہوتی ہے کہ سعودی عرب کی پالیسی ایک لحاظ سے مختلف ہے۔ جذبات اور سستی شہرت کی خاطر تیر اندازی نہیں کی جاتی۔ بھارت کے ساتھ لداخ میں کیا ہوا لیکن ان کی حکومت کے الفاظ اور بیانات کا ہم پاکستانیوں کو ضرور تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ دوستوں میں اضافے کے بجائے انہیں اپنے ہی الفاظ کی آگ سے جھلس دیا جائے اور پھر شکوہ الزام بھی ان پر ہی دھر دیا جائے۔ کیا اسے دانائی پر مبنی سفارت کاری کہا جاسکتا ہے؟؟ سفارت کاری تو جوڑنے کا نام ہے۔ جہاں گنجائش نہ بھی دکھائی دے رہی ہوں، وہاں نئے امکانات کے در کھولے جاتے ہیں، روٹھے منائے جاتے ہیں، ابہام اور غلط فہمیاں دور کی جاتی ہیں۔ سفارت کاری زبان وبیان اور موقف پر اتفاق کی راہیں کھوجنے کا مشکل راستہ ہے۔ اس کے لیے غیرجذباتی پن، دانائی اور دور اندیش درکار ہے۔ وگرنہ نقصان ہمارا اپنا ہوتا ہے۔ ہر ملک اپنے مفاد اور نکتہ نظر سے مسائل اور امور دیکھتا ہے۔ یہی عالمی سفارت کاری کا مروجہ اصول ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ سعودی عرب کے اپنی خارجہ پالیسی اور ان کی قیادت کے عالمی وعلاقائی امور پر فہم ونظر کے بنیادی نکات کیا ہیں؟ سعودی قیادت تنگ نظر انفرادی مفادات یا کسی مخصوص نظریہ کی خاطر اسلامی اور عالمی امور کا استیصال کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔ ان کے نزدیک وطن، اپنے بھائیوں اور دوستوں کے مفادات کو اولین ترجیح حاصل ہے۔ سابقہ عشروں میں سعودی عرب کی یہی پالیسی رہی ہے۔ اب اس پہلو پر بھی کچھ غور کرتے ہیں جو پاکستان کے ’او۔ آئی۔ سی‘ سے الگ ہونے یا متوازی نسبتاً چھوٹی تنظیم کی تشکیل کے کسی امکان کے بارے میں ہے۔ اس سے وقتی جذبات کی تسکین تو غالباً ہوجائے گی لیکن دانائی، دوراندیشی اور امت مسلمہ کے اجتماعی مفاد واتحاد کے بارے میں کئی سنگین مضمرات واثرات برآمد ہوں گے ۔
سب سے پہلا تاثر اسلامی ممالک کے اتحاد میں واضح دراڑ کی صورت میں ہمیں ایک بڑے نقصان کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس کا مطلب اسلامی دنیا کی ایک ایسے مسئلے پر تقسیم ہے جس پر دراصل سفارتی وسیاسی لحاظ سے موقف ایک ہے۔ خود وزیراعظم عمران خان نے کشمیر پر پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں یہ بات کہی تھی کہ ’’بھارت کے ساتھ جنگ کوئی آپشن نہیں‘‘۔ کیا کوئی نیا اتحاد کشمیر کے معاملے پر بھارت کے ساتھ جنگ سے یہ مسئلہ سلجھائے گا؟ کیا یہ دانش مندی ہوگی کہ تنازع جموں وکشمیر پر اسلامی ممالک کی حمایت کو دانستہ اور خود تقسیم کا تاثر دے کر نقصان پہنچایا جائے؟ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوگا کہ کشمیر پر حمایت میں اضافے کے بجائے موجودہ حکومت نے نیا تنازع اور تقسیم کو جنم دے دیا ہے۔ کیا اس کے نتیجے میں پاکستان اور ہمارے کشمیری بھائی سب سے زیادہ متاثر نہیں ہوں گے؟ کیا اس کا سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو نہیں ہوگا؟ دانش مند سفارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’شخصی وفروعی یا ممالک کے داخلی یا اندرونی سیاسی مفادات پر مبنی پاپولزم کے عکاس بیانات پر انحصار یقینا بڑی غلطی ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے انداز پر یہ سمجھنا مزید حماقت ہے کہ ضرورت کے وقت ان پر بھروسا بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں ایک مثال یہ دی جارہی ہے کہ کچھ علاقائی ممالک اسرائیل کے خلاف سخت جذباتی بیانات دیتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ فلسطینیوںکی حمایت میں ایسا کرتے ہیں جو بظاہر دکھائی بھی دیتا ہے۔ لیکن حقیقت کی گہرائی میں اترا جائے تو یہ راز نہیں کہ ان ممالک کے صہیونی ریاست کے ساتھ مضبوط مراسم، سفارتی، تجارتی اور فوجی تعلقات بھی استوارہیں۔ کیا ہم توقع کر سکتے ہیں کہ ایسے ممالک فلسطین آزاد کرائیں گے؟ کچھ یہی انداز مسئلہ کشمیر کے معاملے میں بھی اپنایا جارہا ہے۔ حقیقت کیا ہے؟ کیا بیانات مقبوضہ خطوں کو آزاد کراسکتے ہیں؟ عملاً ایسا نہیں۔
پاکستان کے لیے سعودی حمایت نیا معاملہ نہیں۔ ہر پاکستانی دوسروں سے کہیں بہتر جانتاہے کہ دونوں ممالک میں یہ تعاون محض معیشت، تجارت اور سرمایہ کاری پہلو تک محدود نہیں بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر دفاع اور اسٹرٹیجک شراکت داری کے اہم ترین پہلووں تک وسیع ہے۔ دونوں برادر ممالک کے عوام کے مابین مضبوط اور قریبی تعلقات استوار ہیں۔ نہیں بھولنا چاہیے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی سب سے بڑی تعداد میں میزبانی سعودی عرب کرتا ہے۔ ان محنت کش پاکستانی بھائیوں کے ذریعے پاکستانی معیشت کو سالانہ ساڑھے چار ارب کی ترسیلات زر ہوتی ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے سعودی عرب کو ایک ایسا پر اعتماد دوست سمجھتا ہے جس پر ہر ضرورت اور آزمائش کے وقت وہ انحصار اور اعتماد کرسکتا ہے، اس کا سہارا لے سکتا ہے۔ سعودی عرب کی طرف سے بعض مواقع پر ایسا فوری جواب بھی مل جاتا ہے جو بعض اوقات توقعات سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے۔ دانائی کی راہ اپنائی جائے۔ سفارت کاری بچوں کا کھیل نہیں، دانائی اور دانش مندی کی راہ ہے۔