چوبیس فیصد فرانسیسی مسلمان سیکولر قوانین کے مخالف نکلے

226

فرانس میں ہرچار میں سے ایک مسلمان چہرے پر مکمل نقاب کرنے کے حق میں ہے جبکہ مسلمانوں کی بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو ملک کے سخت سیکولر قوانین کے حامی ہیں۔

 اس حوالے سے ہونے والے تازہ ترین سروے کے مطابق خود کو مسلمان کہنے والے زیادہ تر لوگوں نے عوامی مقامات پر مذہبی تفریق پر مبنی عمل پر پابندی کو تسلیم کیا۔ تاہم 60 فیصد مسلمانوں کا خیال تھا کہ لڑکیوں کو اسکول میں اسکارف پہننے کی اجازت ہونی چاہیے جبکہ 24 فیصد مسلمانوں نے کہا کہ وہ برقعہ یا نقاب کرنے کے حق میں ہے۔ واضح رہے کہ فرانس میں 2010 میں عوامی مقامات پر برقعہ یا چہرے کو مکمل طور پر نقاب سے ڈھکنے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ اس سروے میں ایک ہزار 29 افراد سے رائے لی گئی اور اسے 13 اپریل سے 23 مئی کے دوران مکمل کیا گیا۔

 سروے رپورٹ میں انسٹی ٹیوٹ مونتائگنے نے فرانسیسی مسلمانوں کو تین اقسام میں تقسیم کیا، مکمل طور پر سیکولر، عوامی مفاد میں مذہب پر پابندیوں کو تسلیم کرنے والے اور رجعت پسند جو مذہب کو بغاوت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سیکولر کیٹگری میں شامل افراد کی تعداد 46 فیصد رہی جن کا کہنا تھا کہ وہ اسلامی تعلیمات کو مسترد نہیں کرتے لیکن اپنے مذہبی جذبات کا اظہار حلال کھانے کا خیال رکھ کر کرتے ہیں۔ دوسرے گروہ میں 25 فیصد افراد شامل تھے جو خود کے مسلمان ہونے پر فخر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کام کی جگہوں پر مذہب کا کردار بڑھایا جائے تاہم وہ برقعہ اور ایک سے زائد شادیوں کے خلاف نظر آئے۔

رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ پریشان کن تیسرے گروپ کے لوگ تھے جن کی تعداد کم تھی اور اس میں زیادہ تر نوجوان اور ایسے افراد شامل تھے جن کا لیبر مارکیٹ سے زیادہ واسطہ نہیں پڑتا۔رپورٹ کے مطابق اس گروپ میں شامل افراد کا یہ خیال ہے کہ اسلام انہیں فرانسیسی معاشرے سے الگ رکھنے کا ایک ذریعہ ہے اور اس گروپ کے زیادہ تر افراد نے برقعہ اور ایک سے زائد شادیوں کی بھی حمایت کی جس کی اسلام اجازت دیتا ہے۔اس گروپ میں شامل تقریباً نصف افراد کی عمریں 25 سال سے کم تھیں۔