امارات… اور ایک شاعر

342

ایک طرف رومیوں کی عظیم الشان افواج تھیں اور دوسری طرف مسلمان جن کے پاس نہ اُن کے مقابلے میں ہتھیار تھے اور نہ ہی افواج سیدنا ابوبکر صدیق خلیفہ اوّل تھے۔ یہ 12ھ کی بات تھی۔ ابھی ابھی ارتداد کے ایک بڑے فتنے سے نجات حاصل کی گئی تھی، ساتھ ہی مسلمان کسریٰ سے دو دو ہاتھ میں مصروف تھے اور رومی افواج سے مقابلہ تھا۔ رومیوں کے سردار ہر قل کی فوج لگ بھگ دو لاکھ چالیس ہزار جنگجوئوں پر مشتمل تھی۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں کی کل تعداد تیس ہزار تھی۔ اپنے سے تقریباً دس گنا طاقت ور دشمن سے مقابلہ تھا۔ اس موقع پر سیدنا ابوبکرؓ نے اپنے سالاروں کو تحریری ہدایت بھیجی۔ انہوں نے لکھا… اور جو لکھا وہ ہر دور خاص طور سے آج کے مسلمانوں کے لیے بہترین مشورہ ہے اگر وہ سمجھ و عقل سے کام لیں۔ انہوں نے لکھا: ’’اکٹھے ہو کر ایک لشکر کی شکل اختیار کرلو اور متحد ہو کہ دشمن کے مقابے کے لیے نکلو۔ تم اللہ کے دین کے لیے نکلے ہو ان شاء اللہ پروردگار بھی تمہارا مددگار ہوگا۔ اللہ بھی اُس کی مدد کرے گا اور جو اس کا انکار کرے گا اور ناشکری کا ثبوت دے گا اللہ بھی اُسے چھوڑ دے گا اور اُسے اپنی نصرت کا حقدار نہیں سمجھے گا۔ گناہوں سے بچو اللہ تمہارا حافظ و ناصر ہوگا‘‘۔
یرموک کی یہ جنگ فتح پر اختتام پزیر ہوئی۔ سرزمین شام و فلسطین نے مسلمانوں کے لیے اپنے بازو کھول دیے۔ آج جنگ یرموک میں مسلمانوں کی فتح وار کالجز میں پڑھائی جاتی ہے۔ لیکن کاش عام و خاص سب مسلمانوں کو بھی اپنی تاریخ کو پڑھایا جانا لازم کیا جاتا۔ شاہ فیصل نے کہا تھا کہ اپنے بچوں کو یاد کرائو کہ اسرائیل کوئی ملک نہیں ہے۔ لیکن شاہ فیصل کی بات کو عربوں نے سنجیدہ نہیں لیا۔ لہٰذا نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرلیا۔ اب دونوں کے درمیان دوستی کی ابتدا ہوگئی ہے۔ اس دوستی سے عرب امارات کو کوئی فائدہ ملنے کی توقع نہیں سوائے اس کے اسے امریکا کی گود میں تھوڑی سی جگہ اور مل جائے گی۔ متحدہ عرب امارات فلسطین سے اپنے سفیر واپس بلا کر اسرائیل بھیج دے گا۔ اس معاہدے کے ذریعے امارات اپنی جس بات کو کامیابی کہتا ہے وہ یہ کہ اس معاہدے کے نتیجے میں اسرائیل مقبوضہ غرب اردن کے علاقے اسرائیل میں ضم کرنے کے منصوبے کو معطل کردے گا۔ جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم غرب اردن کے علاقوں کو اسرائیل میں کبھی ضم کرنا نہیں چاہتے تھے۔ کیوں کہ یہ علاقے تو پہلے ہی اسرائیل کے قبضے اور کنٹرول میں ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ کوئی آپ کے گھر کے چھ کمروں میں سے پانچ پر قابض ہوجائے اور آپ اُس قابض سے اس بات پر معاہدہ کرلیں کہ ٹھیک ہے اب تم وہیں رُک جائو اور چھٹے کمرے کے لیے پیش قدمی نہ کرو۔ اسرائیل کے ساتھ معاہدہ تو اس سے بھی برتر ہے کہ وہ چھ کمروں کے بعد دیگر گھروں کے کمروں پر بھی قبضہ چاہتا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کھلے عام کہہ چکے ہیں کہ وہ سعودی عرب کی فضائی حدود سے گزریں گے۔ یعنی اب انہیں سعودی تعاون کی بھی ضرورت ہے۔ لگتا یوں ہے کہ عرب ممالک اسرائیل سے تعلقات کے لیے ایک کے بعد ایک قطار میں لگتے جائیں گے۔ اس معاہدے کے فوراً بعد غزہ پر اسرائیلی راکٹ برسے یعنی اس معاہدے سے فلسطینی آبادی کو یہ کچھ حاصل ہوا اور ہوگا۔ لیکن عربوں کو بھی یہی کچھ حاصل ہونا ہے۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ اس میں کچھ وقت لگے۔ لیکن یہ طے ہے کہ عرب ممالک کا بُرا وقت شروع ہوگیا ہے۔ دائودی ستارہ عربوں کی پشت پر داغے جانے والے جیسے کارٹون اور بے غرت اور غدار کہنا پہلے ممکن نہ تھا۔ لیکن اب ہورہا ہے اور کہاں تک جائے گا نہیں معلوم۔
اماراتی شہزادی الاقصیٰ میں امارات کے لوگوں کو نماز کی ادائیگی کامیابی قرار دے رہی ہیں اور لڑائی سے ہٹ کر سکون سے زندگی گزارنے کا مژدہ سنارہی ہیں۔ واہ کیا بات ہے۔ یقینا جو کچھ کہا جارہا ہے سوشل میڈیا پر ٹھیک ہی کہا جارہا ہے۔ ایسا سکون ذہنی غلامی سے حاصل ہوتا ہے جو جلد ہی مکمل غلامی میں بدل جاتا ہے شعرا کو کمزور کہا جاتا ہے لیکن یقینا مشہور شاعر ساغر صدیقی کی غیرت اور ایمان کی چنگاری زیادہ طاقت رکھتی تھی کہ اُن سے ایسے شعر کہلوا لیتی تھی۔ امت مسلمہ کو مخاطب کرکے کہتے ہیں۔
گنبد مسجد اقصیٰ کی ضیا واپس لو
اپنے اسلاف کی عظمت کو ذرا واپس لو
آرہی ہے یہ فضائوں سے صدائے جوہر
قصر ایمان کی پُر نور ضیا واپس لو
پھر اُٹھو خالدؓ و ضرارؓ و عبیدہؓ بن کر
توڑ دو دست ستم دُرہ فاروقی سے
پنجہِ جبر سے آئین وفا واپس لو
یاد کریں جنگ یرموک اور اس جیسے بہت سے معرکے جو ہتھیار اور افرادی طاقت کے بل پر نہیں لڑے گئے لیکن اس کے باوجود فتح پیچھے پیچھے چلی آئی۔