جماعتِ اسلامی کی سیاسی جدوجہد

414

جماعت اسلامی ایک اسلامی سیاسی جماعت ہے‘ 1941 میں قائم کی گئی تھی اس کا مقصد قانونی، اور سیاسی عمل کے ذریعے، پاکستان کو ایک اسلامی ریاست میں تبدیل کرنا، جس کو شریعت کے تحت حکمرانی حاصل ہے جماعت اسلامی سرمایہ داری، کمیونزم، لبرل ازم، سوشلزم اور سیکولرازم کے ساتھ ساتھ بینک سود کی پیش کش جیسے معاشی نظام کی بھی سختی سے مخالفت کرتی ہے جما عت اسلامی کا بنیادی عقیدہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔ اس عقیدے کے پہلے جزو یعنی اللہ کے واحد الٰہ ہونے اور کسی دوسرے کے الٰہ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ زمین اور آسمان اور جو کچھ آسمان و زمین میں ہے، سب کا خالق، پروردگار،مالک اور تکوینی و تشریعی حاکم صرف اللہ ہے، ان میں سے کسی حیثیت میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔حکومت الہیہ یا اسلامی نظام زندگی کے قیام کے ذریعے رضائے الٰہی اورفلاح اخروی کا حصول اول روز سے جماعت کے پیش نظر رہا ہے اور آج بھی یہی ایک مقصد ہے ’’حکومت الٰہیہ‘‘ کا مفہوم صرف یہ ہے کہ ’’اللہ کو حاکمِ حقیقی مان کر پوری انفرادی و اجتماعی زندگی اس کی محکومیت میں بسر کرنا‘‘ اقامت دین کا مطلب محض مسجدوں میں دین قائم کرنا، یا چند مذہبی عقائد اور اخلاقی احکام کی تبلیغ کردینا نہیں ہوتا۔بلکہ گھراور مسجد، کالج اور منڈی، تھانے اور چھاؤنی، ہائیکورٹ اور پارلیمنٹ، ایوان وزارت اور سفارت خانے، سب پر اس ہی ایک خدا کادین قائم کیاجائے سب کا انتظام اسی ایک رسو ل کی تعلیم کے مطابق چلایا جائے اگر ہم مسلمان ہیں تو ہماری ہر چیز کو مسلمان ہونا چاہیے اپنی زندگی کے کسی پہلوکو بھی شیطان کے حوالے نہیں کرسکتے ‘بندگان خداکو بالعموم اور جوپہلے سے مسلمان ہیں،ان کو بالخصوص اللہ کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں۔ خدا اور رسول ﷺ کی ہدائت کیا ہے۔دوسری ساری باتوں کو ثانوی حیثیت سے صرف اس حد تک پیش نظر رکھے گی جہاں تک اسلام میں اس کی گنجائش موجود ہو۔
جماعت اسلامی کا سارا تنظیمی نظام اس کے ارکان کے ذریعے انجام پاتا ہے یہاں کوئی اشرافیہ نہیں‘ سب کارکن ہیں‘ اگرچہ جماعت اسلامی انتخابی نتائج کے اعتبار سے اور پارلیمانی قوت کے لحاظ سے عددی طور ایک چھوٹی سیاسی جماعت ہے مگر ملک میں اسلامی نظام کے عملی نفاذ کے لیے ایک بھرپور عوامی اور سیاسی قوت ہے۔بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء میں حکومت کے جبر کو برداشت کیا‘ امید تھی کہ تحریک نظام مصطفی کا عوام کو پھل ملے گا مگر نہیں ملا‘ سید مودودی نے اسلام کے ریاستی‘ معاشی اور سیاسی نظام کے بارے میں بہت کچھ لکھا‘ ان کی بے شمار کتب علم اور فکری رہنمائی کا ذریعہ ہیں وہ ہر قسم کے غیر اسلامی طرز فکر کے محاصرے سے آزاد اسلامی ریاست کے تصور کے حامی تھے‘ دلیل کے ساتھ لکھنے اور گفتگو کرنے میں انہیں کمال حاصل تھا وہ جماعت اسلامی کے مسلسل اکتیس سال امیر رہے‘ کبھی سیاسی مصلحت کا شکار نہیں ہوئے اور نہ میڈیا کی طاقت سے مرعوب ہوئے‘ جب اس وقت میڈیا ایک نظریاتی میدان تھا‘ آج کی طرح کمرشل اور کاروباری نہیں تھا‘ مولانا کے بہت کم بیانات اور تصویریں اخبار میں شائع ہوئیں‘ مگر انہوں نے جب بھی گفتگو کی اور کسی سیاسی مسئلہ پر اپنی رائے دی تو ان کی رائے کو قومی سطح پر وزن دیا گیا، حسین شہید سہروردی (ستمبر 1956 ء اکتوبر 1957) کی وزارت عظمیٰ کے دوران، جماعت اسلامی نے ملک میں جدا گانہ طرز انتخاب کا مطالبہ کیا مگر وزیر اعظم سہروردی نے ڈھاکا میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا اور مخلوط ووٹنگ سسٹم کا بل منظور کیا1951 میں جماعت اسلامی میں ایک علمی اور فکری بحث ہوئی‘ جس کے نتیجے میں مستقبل کے حوالے سے اہم سیاسی فیصلہ ہوا1953 میں، جماعت اسلامی نے قادیانیوں کے خلاف تحریک کی قیادت کی‘ مولانا مودودی گرفتار ہوئے اور انہیں موت کی سزا سنائی گئی موت کی سزا ایک فوجی افسر رحیم الدین خان نے سنائی‘ جنرل رحیم الدین خان‘ جنرل ضیاء الحق کے ساتھ بااعتماد دوست کے طور پر رہے ‘جماعت اسلامی کے بہت سے مطالبات 1956 کے آئین کا حصہ بنے ہیں سید مودودی نے آئین سازی کے لیے اس وقت بہت کام کیا تھا ایوب خان نے اقتدار میں آکر سیاست میں مذہب کی مخالفت کی اور سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کی سید مودودی 1964 اور 1967 تک قید میں رہے‘جماعت اسلامی نے صدارتی انتخابات میں، حزب اختلاف کی رہنما، فاطمہ جناح کی حمایت کی 1969 ء کے آخر تک، جماعت اسلامی نظریہ پاکستان کے تحفظ کی ایک بڑی مہم چلائی شوکت اسلام جلوس اس ملک کی سیاسی تاریخ کا حصہ ہے1968 میں مولانا مودودی نے جماعت کی امارت سے رخصت لی اور مولانا نعیم صدیقی ایک سال کے لئے جماعت اسلامی کے امیر بن گئے، 1969 میں مولانا نے پھر ذمے داری سنبھال لی۔ 1972 میں، مودودی نے خراب صحت کے باعث استعفیٰ دے دیا اور میاں طفیل محمد (1914–2009) کو منتخب کیا گیا، نعیم صدیقی کو جماعت اسلامی کا جنرل سکریٹری منتخب کیا گیا 1976 تک، جماعت اسلامی کے پاس 2 لاکھ رجسٹرڈ کارکن تھے جماعت اسلامی نے 1970 کے عام انتخابات میں حصہ لیا تھا اور 151 امیدوار کھڑے کیے جن میں قومی اسمبلی کی چار نشستیں جیتیں‘ذوالفقار علی بھٹو نے 1970 کی انتخابی مہم میں جماعت اسلامی کی شدید مخالفت کی تھی بھٹو کے طوفان بد تمیزی کے باوجود جماعت اسلامی کے چار امیدوار قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے‘ پروفیسر غفور احمد کا آئین سازی میں کردار ایک مثالی یادگار کردار ہے‘1977 میں جماعت اسلامی نے حزب اختلاف پاکستان نیشنل الائنس کے ذریعہ حاصل کردہ 36 میں سے 9 نشستیں جیتیں1987 میں، میاں طفیل محمد نے صحت کی وجوہات کی بناء پر جماعت اسلامی کے سربراہ کی حیثیت سے مزید خدمات سے انکار کردیا اور قاضی حسین احمد منتخب ہوئے ان کی سربراہی میں1993 کے انتخابات میں، جماعت اسلامی پاکستان اسلامک فرنٹ کے نام سے انتخابات میں اتری اور تین نشستیں جیتیں20 جولائی 1996 کو قاضی حسین احمد نے بدعنوانی کے الزام میں حکومت کے خلاف تحریک کا اعلان کیا۔ قاضی حسین احمد نے 27 ستمبر کو سینیٹ سے استعفیٰ دے دیا اور بے نظیر حکومت کے خلاف لانگ مارچ کے آغاز کا اعلان کیا 4 نومبر 1996 کو، بے نظیربھٹو کی حکومت بدعنوانی کی وجہ سے صدر لغاری نے برخاست کردی اس کے بعد جماعت اسلامی نے 1997 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا2002 میں، جماعت اسلامی نے متحدہ مجلس عمل کے نام سے دینی جماعتوں کا اتحاد بنایا اور 53 نشستیں حاصل کیںقاضی حسین احمد کے بعد سید منور حسن ایک مدت کے لیے امیر رہے آج کل سراج الحق امارت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔