بلیم گیم، نو مور

280

گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں مملکت خداداد پاکستان کے نوے ہزار عساکر میں سے ایک ’’صدیق سالک‘‘ نے ڈھاکا دوبتے دیکھا اور اس نے اپنی تمام یاد داشت کو ایک کتابی شکل دی گویا ان کی آپ بیتی اور ہمارے ملک کی جگ بیتی مرتب کی۔ آج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ڈھائی کروڑ ساکنان کراچی اپنے شہر کو ڈوبتا دیکھ رہے اور اپنے جان مال کے نقصان پر دہائیاں دے رہے ہیں۔ گزشتہ صدی کی یہ ہزیمت بیشک بین الاقومی سازش کا نتیجہ تھی تاہم اس میں ہماری داخلہ اور خارجہ پالیسی کی ناقص حکمت عملی اور ہماری نااہلی کا بھی بڑا دخل تھا۔ ہم اس ہزیمت سے بچ سکتے تھے مگر اقتدار پر قابض لوگوں نے ایسا نہیں ہونے دیا اور آج کی یہ تباہی بھی سراسر ان ہی لوگوں کی نااہلی کا نتیجہ ہے۔
کئی دہائیوں سے اس صوبے اور شہر پر قابض حکمران اب ایک دوسرے پر الزامات کی بارش اور تند و تیز لب و لہجہ اختیار کرکے عوام کو ایک بار پھر دھوکا دینا چاہتے ہیں جو یقینا خود فریبی ہے۔ پی پی پی اور ایم کیو ایم تو کسی صورت اپنے آپ کو اس تباہی سے بری الذمہ نہیں کر سکتیں مگر یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ تحریک انصاف بھی اس میں برابر کی شریک ہے حالانکہ انہیں اقتدار میں آئے ابھی دو سال ہی تو ہوئے ہیں، ایسا اس وجہ سے ہے کہ ان کے جھوٹے وعدوں نے ساکنان کراچی کو گمراہ کیا اور یہاں سے ملنے والی ایک بڑی کامیابی کے نتیجے میں ایوان اقتدار میں ان کا داخلہ اور مسند اقتدار پر ان کا قبضہ ممکن ہوا۔ کون نہیں جانتا کہ صوبہ سندھ کا ترقیاتی بجٹ کا نصف سندھ کی حکومت اس کے بیوروکریٹس اور صوبہ بھر میں پھیلے راشی افسران کی جیبوں میں جاتا ہے لہٰذا کوئی کام ابھی مکمل بھی نہیں ہوتا کہ اس کی از سر نو مرمت کی ضرورت پیش آجاتی ہے۔ شہری آبادیوں خصوصاً کراچی، حیدرآباد اور میر پور خاص کئی دہائیوں سے اداروں کی بنائی گئی فاشسٹ تنظیم ایم کیو ایم کی چھائونیاں بنے رہے ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنے مخالفین کو اپنے پنجے میں دبائے رکھا بلکہ خود اپنے لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور اپنے مالکوں کے حکم کی تعمیل میں کراچی کے اسکول پارکس کھیل کے میدان ریلوے اراضی حتیٰ کہ ندی نالوں تک کو نہ بخشا اور چائنا کٹنگ کے ذریعے کراچی کو کرچی کرچی کیا دراصل ان کو کھلی چھوٹ دی ہی اس لیے گئی کہ اپنے آپ کو پس پردہ رکھ کر ان کے ذریعے اپنا مفاد حاصل کیا جا سکے اور پھر سب جانتے ہیں بعد از استعمال ٹی شو پیپر کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے۔ اب میئر کراچی وسیم اختر اپنی الوداعی پریس کانفرنس میں جتنے چاہیں ٹسوے بہا لیں مگر میئر تو اپنا ہونا چاہیے کا نعرہ لگانے والے ان کے اپنے اسے مگر مچھ کے آنسووں ہی سے تعبیر کر رہے ہیں۔
تحریک انصاف کی دھوکا دہی یہ ہے کہ انہوں نے اس بار وزیر اعظم کراچی سے کا نعرہ لگا کر وزارت عظمیٰ حاصل کی عمران خان نے اہل کراچی سے وعدہ کیا کہ وہ شہر قائد کی روشنیوں کو دوبارہ بحال کریں گے اور چوروں سے حساب لیں گے۔ کراچی سے گندگی اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں کا خاتمہ کریں گے کراچی کے امن کے لیے پولیس اور رینجرز کو فعال کریں گے کراچی کے لوگوں کو نوکری کے لیے دبئی جانے نہیں دیں گے۔ مارچ 2019 میں کراچی ٹرانسفارمیشن کمیٹی کے اجلاس کے بعد انہوں نے کراچی کے لیے 162 ارب کے پیکیج کا اعلان کیا جس کے تحت شہر قائد میں 18منصوبوں پرکام شروع ہونا تھا جن میں کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی، کراچی کے چھ اضلاع میں شمسی توانائی سے چلنے والے 200 آر او پلانٹ، کورنگی میں سیوریج کے پانی کو قابل استعمال بنانے کے لیے ٹریٹمنٹ پلانٹ کی سو فی صد فنڈنگ، کراچی کو پانی کی فراہمی کے منصوبے کے فور کی پچاس فی صد فنڈنگ، شہر میں گرین لائن بس منصوبہ فعال کرنے کے لیے 8 ارب روپے جاری کرنے کا وعدہ اور صحت صفائی سیوریج اور ٹرانسپورٹ کے دیگر منصوبے شامل تھے مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔
یہ پہلاموقع تھا کہ اس بار ملک کا صدر، وزیر اعظم سندھ کا گورنر اور اہم شعبوں کے وزارء اور مشیران کا تعلق کراچی سے ہے مگر یہ کراچی والوں کی خوش قسمتی کے بجائے ان کی بدبختی بن کر سامنے آئی وجہ اول ان تمام کی نااہلی دوم کراچی پر اپنی جماعت کے قبضے کی کوشش۔ کوئی نہیں چاہتا کہ 162 ارب کا پیکیج دکھ جھیلیں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں کے مصداق کسی اور جماعت کی جھولی میں جا گرے لہٰذا اس پیکیج کے اعلان کے باوجود اہل کراچی کے ہاتھ کچھ بھی نہ آیا اور وفاق، صوبہ اور شہری حکومت کے بلیم گیم نے اہلِ کراچی کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا اور تحریک انصاف سے ان کی ساری امیدیں خاک میں مل گئیں اور ان کی خوش فہمیاں ہوا میں اڑ گئیں۔
بلیم گیم کی اس کہانی میں ساکنانِ کراچی خود بھی ذمے دار ہیں انہوں نے خود ہی کراچی سے امانت، دیانت اور شرافت کی سیاست کا خاتمہ کیا، ہمدردان شہر کے بجائے قاتلان شہر کو اپنا مینڈیٹ دیا، مخلص لوگوں کا ہاتھ جھٹک کر کراچی کے شرفاء دانشوروں اور اہل الرائے لوگوں سے خون کی ہولی کھیلی، شفاف اور دیانت دار لوگوں کے جمہوری حق پر حملہ کیا ان کے جلسوں اور اسٹیج پر چڑھ کر غفورا ٹھا، فاروقی ٹھا، نورانی ٹھا کا نعرہ لگایا اب یہ چاہے جتنا بھی روئیں اور ٹسوے بہائیں اس کا حاصل وصول ان کی دسترس سے بہت دور جاچکا ہے، کراچی اب بلوچستان کی طرح پسماندگی کے گڑھے میں جا پڑا ہے میں یقین سے کہتا ہوں کہ کراچی کے کئی اضلاع بنا کر ان سب کے علیحدہ علیحدہ میئر اور شہری حکومت بنا بھی دی جائے تو پھر بھی کراچی کی ترقی اور اس کی گند بلا صاف کرنے کے لیے کئی دہائیاں درکار ہیں۔ اہل کراچی اپنے مجرم خود ہیں کراچی کو کسی اور نے نہیں ہم نے خود ہی ڈبویا ہے جب ہم نے نگینے لوگوں کے بجائے بقول شاعر کمینے لوگوں کو اپنا حکمران چنا اور ایسا ہم نے ایک بار نہیں کئی بار کیا پہلے ایم کیو ایم بعد میں پی ٹی آئی حالانکہ مومن کی نشانی یہ بتائی گئی ہے کہ وہ ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جا سکتا مگر یہ ہوا۔ یہ شہر یوں ہی نہیں ڈوبا ہم نے خود ہی اسے ڈبویا لہٰذا رونا دھونا شکوہ شکایت چھوڑو اور پھر سے اپنی اصلی خدمت گزار اور بے لوث قیادت کو پہچانو جو اس مشکل گھڑی میں اپنے کارکنان کے ساتھ کراچی کے ہر بارش زدہ علاقے میں ہمہ وقت موجود ہے اب اندھے اور گونگے بن کر جینے کے بجائے اپنے حق پر ڈاکا ڈالنے والوں سے اپنا انتقام انہیں مسترد کر کے لو۔ کہو! بلیم گیم نہیں ہمیں فیئر گیم چاہیے نو مور فاول پلے، بلیم گیم، نو مور۔ نہ ہم ڈوبیں گے نہ کراچی ڈوبنے دیں گے خبردار!