باران رحمت اور کراچی

194

پروردگار نے اس کائنات کو قائم کرتے وقت حیات بخش عناصر حیرت انگیز طور سے انتہائی متوازن تناسب سے مہیا کر دیے تھے۔ اگر ہم غورکریں تو تعجب ہوتا ہے کہ تمام نظام ہائے زندگی کس قدر باریک بینی سے مرتب کیے گئے ہیں۔ سورج کی روشنی اور حرارت اس دنیا پر موجود تمام چرند پرند حشرات الارض اور نباتات کے زندہ رہنے کے لیے ناگزیر ہے۔ موسم کے تغیر وتبدیلی پر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ ہر موسم سے جاندار اپنے لیے خوب فوائد سمیٹتے ہیں مثلاً اناج، سبزیاں اور پھل وغیرہ کی بے شمار اقسام مختلف موسموں میں اُگائی جاتی ہیں جن سے ہم توانائی کا خزانہ حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح سمندروں سے بخارات کی صورت میں اٹھنے والا نمکین اور کھارا پانی بارش اور برف باری کی قابل استعمال صورت میں دریائوں، آبشاروں اور تالابوں سے ہم حاصل کرتے ہیں۔ اربوں انسانوں اور کھربوں اقسام کے دیگر جانداروں سے مزیّن اس سیارے کے ماحولیاتی نظام کی ترتیب اور توازن پرتحقیق کرنے والے سائنس دان حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ اور اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ توازن اگر قائم نہ کیا جاتا تو دنیا کے سیارے پر حیات کا وجود ہی قائم نہیں کیا جاسکتا تھا۔
یہ سب کچھ ہمارے لیے مالک کائنات نے بنایا تاکہ ہم اسے اپنے بھلے کے لیے استعمال کریں اور راحت پائیں۔ ہم انسانوں نے اس کے بدلے میں بجائے احسان مندی اور شکر گزاری کے نافرمانی اور ناشکری کی روش اپنائی۔فیکٹریوں اور ذرائع آمدو رفت کی بدولت بے شمار زہریلی گیسیں اور کیمیکل مادے قدرت کی عطا کردہ اس متوازن فضا کو زہر آلود کردیا۔ مالی فائدے کے لیے جنگلات کو بے دریغ کاٹ کر لکڑی حاصل کی گئی اور سیلابوں کے قدرتی روک تھام کے ذریعے کو تباہ وبرباد کر دیا گیا۔ زیادہ سے زیادہ آسائش اور مال و دولت کے حصول کے لیے جہاں ایک طرف قدرتی وسائل کو تباہ و برباد کر دیا گیا وہیں عوام کی سہولت کے لیے بنائے گئے اداروں اور محکموں کی بد عنوانی اور مجرمانہ غفلت کے سبب شہروں کو رہنے کے لائق نہ چھوڑا۔
آج جہاں ایک طرف ہم پوری دنیا کے موسموں میں ڈرامائی تبدیلی دیکھ رہے ہیں وہیں پر اپنے پیارے وطن پاکستان کو بھی اس ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے مشکل حالات میں گھرا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ بارش جسے عرف عام میں ’’باران رحمت‘‘ کہا جاتا ہے بلا شبہ مالک ارض وسما کی ایک عظیم نعمت ہے۔ گزشتہ دنوں پورے پاکستان میں مون سون کی طوفانی بارشوں نے سیلابی صورتحال پیدا کر دی۔ پنجاب، بلوچستان، کے پی کے، سندھ اور آزادکشمیر ہر صوبہ میں عوام پریشان حال دکھائی دیے۔ مگر سب سے سنگین حالات کراچی جیسے بڑے بین الاقوامی شہر میں دیکھنے کو ملے۔ کئی دہائیوں سے کراچی پر حکومت کرنے والی دو بڑی سیاسی پارٹیوں کی بد عنوانیوں اور بدنیتیوں کے مرہون منت سب سے زیادہ ریوینو دینے والا شہر آج ملک کے سب سے بدترین انتظامی نظام کی تصویر پیش کر رہا ہے۔ پہلی ہی بارش سے ٹوٹی پھوٹی سڑکیں بہہ گئیں۔ سیوریج کا نظام بیٹھ گیا۔ پانی گھروں میں داخل ہو گیا۔ مواصلاتی نظام درہم برہم ہوگیا۔ بجلی کے ساتھ ساتھ موبائل سروس، انٹرنیٹ اور پی ٹی سی ایل سب کے سب ناکارہ ہو گئے۔
لالچ اور ہوس کے مارے سیاست دانوں نے چائنا کٹنگ کے ذریعے سرکلر ریل ٹریک کے ساتھ ساتھ نالوں تک کو بیچ کر اپنے شکم بھر لیے۔ تجاوزات ختم کرنے کے دعوے کے ساتھ اپنے اقتدار کا آغاز کرنے والی حکومت کو صرف غریب کے کچے جھونپڑے اور چھوٹی موٹی دکانیں ہی تجاوزات دکھائی دیں۔ نالوں اور گرین بیلٹ کی زمین پر چائنا کٹنگ کے ذریعے کھڑی کی گئی بلند و بالا عمارات اور بنگلے نہ دکھے۔
بلدیاتی اداروں میں فنڈ اور اختیارات کے جھگڑوں کی وجہ سے ’’نہ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے‘‘ کی لڑائی میں کراچی کو ’’کچراچی‘‘ بنا ڈالا۔۔۔ لیکن سیاستدانوں کی ڈھٹائی دیکھیں کہ بجائے اپنی کوتاہیوں اور مجرمانہ غفلت کے باعث عوام کو پہنچنے والے جانی اور مالی نقصانات کا اعتراف اور ازالہ کریں اب بھی ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھیرا کر خود کو فرشتہ صفت ثابت کرنے پر تلے ہیں۔ آزمائش کے اس کڑے وقت میں ’’جماعت اسلامی‘‘ کے اکابرین سے لے کر کارکن تک سب متاثرہ علاقوں میں دن رات امدادی مہم میں سرگرم رہے۔ آفت زدہ علاقوں میں بحالی سے لے کر خوراک پہنچانا، مفت بس سروس چلانا، طبی عملے کا ہر علاقے میں بروقت طبی امداد پہنچانا یہ سب کچھ ایک ایسی جماعت نے کر دکھایا جسے حکومتی فنڈ حاصل نہیں یہاں ہر کام رضا کارانہ طور پر خالص رضائے الٰہی کے جذبے کے تحت کیا جاتا ہے۔
تمام حکومتی اداروں کو دیمک کی طرح چاٹ جانے والے ان موروثی سیاست دانوں نے ہر جا ئز ناجائز ذرائع استعمال کر کے اپنی کالی کمائی سے تجوریاں تو بھر لیں پر انہیں غریبوں اور مظلوموں کی آہیں نہ سنائی دیں۔ کراچی کے عوام کو اب اپنی آنکھیں کھولنی ہوں گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ محنت کشوں کا یہ شہر بے ضمیر اور خود غرض سیاست دانوں کا دامن چھوڑ کر مخلص، ایماندار اور دردِ دل رکھنے والی جماعت اسلامی ہی کا انتخاب کریں۔ ہم اہل کراچی چیف جسٹس آف پاکستان ’’گلزار احمد‘‘ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر ’’سو موٹو ایکشن‘‘ کے ذریعے تحقیقات کریں اور ہمارے اس خوبصورت شہر کراچی کی بر بادی کے ذمے دار عناصر کو گرفتار کرکے کڑی سے کڑی سزا دیں۔