تعلیمات اور عمل کا تضاد دور کرنا ہوگا

314

اگر ہم اپنی تعلیمات، روایات اور اقدار کا جائزہ لیں اور پھر عملی میدان میں ان کا مشاہدہ کریں تو جو ہماری تعلیم ہے، جن روایات کے ہم حامل ہیں اور جن اقدار کے ہم امین ہیں، ہم اس سے زمین و آسمان کی دوریوں کا فرق رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں سارے انسانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کرتے ہوئے صاف صاف فرما دیا ہے کہ انسانوں کا ایک گروہ وہ ہے جس کے حصے میں سوائے خسارہ اور کچھ بھی نہیں اور انسانوں کا ایک گروہ وہ ہے جس کی جھولی نفع ہی نفع سے بھری پڑی ہے۔ تمام منافع ان کے حصے میں ہے جو ایمان کی دولت سے مالا مال ہیں، جن کا ہر عمل عمل ِ صالح ہوتا ہے، جو صرف اسی بات کو معاشرے میں عام کرتے ہیں جس میں کسی بھی شر و فساد کی آمیزش نہیں ہوتی اور ایمان پر قائم رہنے، صالح اعمال کی انجام دہی اور شر و فساد سے پاک باتوں کو عام کرنے کے سلسلے میں جو جو بھی مشکلات، تکالیف اور اذیتیں پیش آتی ہیں ان پر دل جھوٹا کرنے، مایوس ہونے یا حوصلہ توڑ دینے کے بجائے نہایت صبر و استقامت کے ساتھ ڈٹے رہتے ہیں۔ ان چار صفات سے مکمل یا جزوی طور پر پھرنے، یقین کی راہ سے بھٹک جانے، اپنے منہ سے شر و فساد کی باتیں نکالنے اور ذرا سی پریشانی کو مد مقابل پاکر اپنا حوصلہ ہار جانے والے جتنے بھی انسان ہیں ان کے حصے میں سوائے خسارے، شرمندگی اور ناکامی، کچھ بھی ہاتھ آنے والا نہیں۔
ہماری تعلیمات ہمیں جزوِ ایمان میں سے حیا کی تعلیم دیتی ہیں لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بے حیائی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ تعلیمات کہتی ہیں کہ صبر ہر ہر قدم پر ضروری ہے لیکن ہم زندگی کے ہر معاملے میں بے صبرے پن کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ زبان کو شستہ و شائستہ رکھنے کا کہا گیا ہے لیکن کوئی بھی ایسا نہیں جس کے لہجے سے مٹھاس اور شائستگی چھلکتی ہو۔ یہ تو وہ مظاہرے ہیں جو ہر لحظہ قوم کا بچہ بچہ دیکھ رہا ہوتا ہے لیکن معاشرے کی بہت ساری باتیں جو کتابوں میں تو کسی اور انداز سے درج ہیں اور زبانی کلامی ہر ہر مقام پر بیان کی جاتی ہیں، عملی مظاہروں اور مشاہدوں میں بالکل ہی اس کے برعکس ہیں جس کے ہم امین قرار دیے گئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے، اسی ماں کا بڑھاپا اس کے لیے جہنم بنادیا جاتا ہے۔ باپ خاندان کا بڑا تصور ہوتا ہے، ضعیفی میں نہ صرف وہ ایک بوجھ سمجھا جانے لگتا ہے بلکہ گھر کا سب سے خراب گوشہ اس کی زندگی کی آخری آماج گاہ بنادیا جاتا ہے اور ایسا ہی کچھ بیٹیوں، بہنوں اور دیگر چھوٹے بڑوں کے ساتھ پیش آرہا ہوتا ہے۔ مختصر طور پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا معاشرہ جس انداز کی زندگی گزار رہا ہے، اس میں اور ہماری تعلیمات میں اتنا بڑا خلا پیدا ہو چکا ہے جس کا بھرنا ناممکن سا نظر آنے لگا ہے۔
ہم میں سے ہر فرد، خاندان، گروہ، تنظیموں، پارٹیوں اور پاکستان کے سارے محکموں کے افراد اسی معاشرے میں پرورش پانے کے بعد ہی عملی زندگی میں داخل ہوتے ہیں لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ان تمام خرابیوں سے آلودہ ہوئے بغیر عمر کی پختگی تک پہنچے ہوں۔ فرق اگر ہوگا تو یہی ہوگا کہ کوئی بگاڑ کا کم شکار ہوگا اور کسی میں بگاڑ عروج کو چھو رہا ہوگا۔ کتابوں میں درج تعلیمات، روایات اور اقدار بے شک کچھ بھی ہوں لیکن عملی میدان میں ہم ان سے نہایت مختلف زندگی گزرنے کے عادی ہو چکے ہیں اس لیے پاکستان کا کوئی بھی محکمہ کیوں نہ ہو، اس میں شامل ہونے والا ہر فرد اسی معاشرے سے ہوتا ہوا اپنی عملی زندگی میں داخل ہوتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس میں وہی تمام خوبیاں یا خامیاں موجود نہ ہوں جو معاشرے کا جزوِ لاینفک بن چکی ہیں۔ جن معاشروں میں بھی بڑوں ہی کو بلحاظِ تعلیم اور عملاً بڑا سمجھا جاتا ہے، دنیا میں وہی معاشرے ہر لحاظ سے پْر سکون اور ترقی کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں لیکن جہاں تعلیم کچھ اور عمل کچھ اور ہے، پوری دنیا میں وہی معاشرے بے چینی اور ابتری کا شکار ہیں۔ جس طرح معاشرے تعلیم کے مطابق اپنے عمل سے دور ہوکر کسی بھی طرح امن، سکون اور ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتے بالکل اسی طرح یہ ممکن ہی نہیں کہ دنیا کا کوئی ملک بھی بلندی کی جانب پرواز کرسکے۔
ہر ریاست کا ایک ہی سربراہ ہوا کرتا ہے۔ کوئی ملک اس وقت تک ترقی کرہی نہیں سکتا جب تک ملک کا بچہ بچہ اپنے ملک کے سربراہ کا مطیع نہ ہو۔ پوری دنیا پر نظر ڈالی جائے تو یہی بات مشاہدے میں آتی ہے کہ جہاں جہاں بھی اس اصول میں کوئی تضاد موجود نہیں، وہاں وہاں امن و سکون اور خوشحالی دکھائی دیتی ہے لیکن جہاں بھی اس کے برعکس ہے وہاں ابتری، بے چینی اور بدحالی راج کرتی دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان کی مختصر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہاں حکمرانی کے 3 مارشل لائی ادوار ہی ایسے گزرے جس میں پورا پاکستان ’’حکومت‘‘ کے ماتحت کام کرنے کا پابند رہا جس کے نتیجے میں پاکستان آگے کی جانب بڑھتا ہوا محسوس ہوا لیکن جب سے ہر حکمران ماتحت محکموں کے تعاون کا شکار نظر آرہا ہے، اس وقت سے پورا پاکستان ایک ہیجانی کیفیت کا شکار ہے۔ عالم یہ ہوگیا ہے کہ موجودہ حکمران کو جہاں بار بار قوم کو یہ یقین دلانا پڑ رہا ہے کہ ہم حقیقی جمہوری انداز ہی سے اقتدار تک آئے ہیں وہیں بار بار یہ یقین بھی دلانا پڑ رہا ہے کہ ہم اور فوج ایک ہی پیج پر ہیں۔ موجودہ حکمران کے یہ جملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہمارا معاشرہ تعلیم اور عمل میں شدید تضاد کا شکار ہے۔ جب تک ہم اس تضاد سے باہر نہیں نکلیں گے اس وقت تک یہ خیال کرنا کہ ہم پاکستان کو ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان بنا سکیں گے، ایک بہت بڑی بھول کے علاوہ اور کچھ نہ ہوگا۔