قلم اور آزادی

252

اقبالؔ نے قدرتی مناظر پر بہت سی نظمیں کہی ہیں وہ نظمیں فطرت کا گویا دل آویز مرقع ہیں چوں کہ وہ ایک صاحب پیغام شاعر تھے لہٰذا اُن کی شاعری میں حسن کی تمام تر خوبیوں کے ساتھ ایک واضح پیغام ہوتا تھا۔ ’’گورستان شاہی‘‘ اقبال کی ایک لاجواب نظم ہے۔ یہ نظم انہوں نے حیدر آباد دکن میں ایک مختصر قیام کے دوران لکھی جب وہ ایک رات اُن شاندار مگر حسرت ناک گنبدوں کے زیارت کے لیے گئے۔ جہاں سلاطین قطب شاہی سو رہے تھے۔ اقبال کہتے ہیں ’’رات کی خاموشی ابر آلود موسم بادلوں سے چھن چھن کر آتی ہوئی چاندنی نے اِس پُرحسرت منظر کے ساتھ مل کر میرے دل پر ایسا اثر کیا جو کبھی فراموش نہ ہوگا‘‘۔
وہ منظر کشی کرتے ہوئے کہتے ہیں
آسماں بادل کا پہنے خرقۂ دیرینہ ہے
کچھ مکدّر سا جبینِ ماہ کا آئینہ ہے
چاندنی پھیکی ہے اس نظارۂ خاموش میں
صبح صادق سو رہی ہے رات کی آغوش میں
قبرستان کی زیارت کا منظر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جیسے آسمان نے پرانی گدڑی پہن رکھی ہے، فضا میں بادل ہونے کے سبب چاند کی پیشانی کا آئینہ قدرے میلا ہوگیا ہے۔ لہٰذا چاندنی پھیکی سی نظر آرہی ہے۔ یوں سمجھنا چاہیے کہ صبح صادق جیسے رات کی گود میں سو رہی ہے، یہ گویا کمال کی تشبیہ ہے یعنی روشنی تو ہے لیکن ایسے جیسے صبح صادق رات کی گود میں ہونے کے باعث اُس پر قدرے سیاہی چھائی ہوئی ہے۔ دوسری بات کہ پُو پھٹنے کے وقت پرندوں کے چہچہے شروع ہوجاتے ہیں، اذان کی آواز فضا میں گونجنے لگتی ہے لیکن چوں کہ یہ چیزیں منظر میں موجود نہیں ہیں تو گویا جیسے صبح صادق سو رہی ہے۔
تشبیہ کا ایک اور انداز دیکھیے کہتے ہیں
سلسلہ ہستی کا ہے اک بحرِ ناپید کنار
اور اس دریائے بے پایاں کی موجیں ہیں مزار
کہ ’’زندگی کا سلسلہ ایک ایسا سمندر ہے جس کا کنارہ نظر نہیں آتا اور قبریں جیسے اس سمندر کی موجیں ہیں۔ قبروں کو موجوں سے اس لیے تشبیہ دی ہے کہ دونوں میں اُبھار ہوتا ہے۔ اگرچہ نظم میں مایوسی اور حسرت کا رنگ نمایاں ہے لیکن اقبال نے اپنے خاص انداز سے آخری بند میں اُمید کا پیغام دیا ہے اور ساتھ خوشخبری بھی سنائی ہے۔ کہتے ہیں۔
دل ہمارے یادِ عہد رفتہ سے خالی نہیں
اپنے شاہوں کو یہ اُمت بھولنے والی نہیں
……
دہر کو دیتے ہیں موتی دیدۂ گریاں کے ہم
آخری بادل ہیں اک گزرے ہوئے طوفاں کے ہم
ہیں ابھی صدہا گُہر اس ابر کی آغوش میں
برق ابھی باقی ہے اس کے سینہ خاموش میں
وہ بتاتے ہیں ہمارے دل گزرے ہوئے زمانے کی یاد سے کبھی خالی نہیں ہوئے، ہماری قوم اپنے بادشاہوں کو بھول نہیں سکتی، ہم زمانے کو رونے والی آنکھ کے موتی دیتے ہیں، جو طوفان گزر چکا ہم اس کا آخری بادل ہیں، لیکن یہ بادل معمولی نہیں اس کی گود میں ابھی سیکڑوں موتی باقی ہیں اور اس کے خاموش سینے میں بجلی چھپی ہے۔
یہ ہے وہ اُمید اور خوش خبری جو وہ اپنی قوم کو دیتے ہیں۔
یہ نظم انہوں نے 1910ء میں کہی تھی آج 2020ء ہے یعنی اس خوشخبری کو سنائے ہوئے سو سال سے زیاد ہوگئے۔ لیکن قوموں کی زندگی میں سو سال چند قدم ہی تو ہوتے ہیں۔ تبدیلی تو اس دوران یقینا آئی ہے، اُس وقت آزادی عنقا تھی۔ سوچ اگر تھی تو محض ایک خواب کے مانند تھی جس کے خدوخال بھی واضح نہ تھے۔ لیکن بالآخر اقبال کا خواب پورا ہوا، مسلمانوں کو اگرچہ لاکھوں جانوں کا نذرانہ دینا پڑا، خون مسلم پانی کی طرح بہا، باپردہ مسلم خواتین کی عصمتیں لُٹیں، معصوم بچے نیزوں پر اُچھالے گئے، مال چھینا گیا، گھر در سے محروم ہوئے لیکن آزدی کی دُلہن کو حاصل کرکے رہے۔ یہ الگ بات کہ بعد میں اس دلہن کی مانگ میں بجائے ستاروں کے کانٹوں سے بھرنے میں جُٹ گئے۔
بہرحال اقبال نے سو سال پہلے اُمید کا جو پیغام دیا تھا وہ حقیقت میں ڈھلا، اگرچہ بعد میں ہماری اپنی حماقتوں، تن آسانیوں اور آسانی سے آسائشوں کے حصول کی خواہش نے نوآزاد وطن کو بے حد نقصان پہنچایا۔ سچ یہ ہے کہ آزادی کی وہ قدر نہ کی گئی جو کی جانی چاہیے تھی۔ سرزمین پاک رب کی عطا جس کو ہمارے لیے ماں کی گود کی طرح محفوظ کیا گیا لیکن طمع حرص لالچ نے اسے غیر محفوظ کردیا۔ چور کو چوکیدار کے منصب پر فائز کردیا گیا۔ ان سارے نامساعد حالات کے باوجود عہد کے پکے کچھ لوگ جماعت کی صورت میں موجود رہے۔ اقبال کی اُمید کا دامن تھامے وطن کی آزادی اور بقا کے لیے قربانیاں دیتے رہے، قید و بند کی صعوبتیں اور پھانسی کے پھندے بھی انہیں نہ ڈرا سکے، آج وہ عہد وفا کو نبھاتے ہوئے ہنستے کھیلتے پھانسی کے پھندوں پر جھول جاتے ہیں۔ شہدا کا قافلہ رُکا نہیں تھما نہیں اور نہ ہی ان شاء اللہ تھمے گا، جب جب اور جہاں جہاں ضرورت پڑی لبیک کی صدائوں کے ساتھ حاضر ہیں۔
اقبال یقین کی قوت سے آشنا کراتے ہوئے کہتے ہیں
غلامی میں کام آتی ہیں نہ شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
یہ یقین قلم پر بھی ہے، قلم دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے، غلامی میں شمشیریں اور تدابیریں بے شک کام نہ آتی ہوں لیکن قلم ضرور کام آتا ہے۔ جیسے اقبالؔ اور دیگر مشاہیر کا قلم آیا۔ یہ قلم ہی ہے جو قوموں کی قسمتوں کے فیصلے کی قوت رکھتا ہے، قلم کے لکھے ہوئے الفاظ اپنے اندر بے پناہ قوت رکھتے ہیں۔
قلم کا صحیح استعمال جہاں آزادی کا تقاضا کرتا ہے وہاں ذمے داری کا بھی تقاضا لازم ہے۔ منافقت اور صحافتی بددیانتی سے قوم میں بے ہمتی، مایوسی اور ذہنی بگاڑ پھیلتا ہے، اعلیٰ اقدار کے ساتھ جینے کا حوصلہ ماند پڑ جاتا ہے، غیر ذمے داری کے ساتھ استعمال کیے ہوئے الفاظ معاشرے کا توازن بگاڑ دیتے ہیں، نئے نئے فتنے جگاتے ہیں اور قوم کو متحد رکھنے کے بجائے فکری انتشار میں مبتلا کردیتے ہیں۔ لہٰذا آزادی کو قائم رکھنے عروج کی منزل کے سفر کے لیے قلم کا انتہائی ذمے داری، ایمان داری اور خلوص دل کے ساتھ استعمال لازم و ملزوم ہے۔