امریکا نے شام میں کرد جنگجوں کو ہتھیار فراہم کیے، ترک صدر

245

 ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکا نے رواں ہفتے شمالی شام میں جنگ میں مصروف کرد جنگجوں کو ہتھیاروں سے بھرے 2 طیارے فراہم کیے ہیں۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق نیویارک میں طیب اردگان کی جانب سے دیئے گئے اس بیان سے ترکی اور امریکا کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوسکتے ہیں۔شام میں شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف کارروائیوں میں ترکی، امریکا کا اتحادی ہے تاہم اس کا ماننا ہے کہ شام میں کردوں کی تنظیم پیپلز پروٹیکشن یونٹس(وائی پی جی) اور اس کے سیاسی ونگ ڈیموکریٹک یونین پارٹی (پی وائی ڈی)، ترکی میں سرگرم کرد باغی فورسز کی مدد کرتی ہیں، جو اس کی سرزمین پر گذشتہ 3 عشروں سے زائد شورش پھیلانے میں مصروف ہیں اور جنھیں ترکی کی جانب سے دہشت گرد تنظیم قرار دیا جاتا ہے۔

طیب اردگان نے اپنے بیان میں امریکا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ‘اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ وائی پی جی اور پی وائی ڈی کی مدد سے داعش کو ختم کرسکتے ہیں، تو ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ بھی دہشت گرد تنظیمیں ہیں۔اردگان کا کہنا تھا، ‘3 دن قبل امریکا نے ہتھیاروں سے لوڈ 2 طیارے شام کے قصبے کوبانی میں ان دہشت گرد گروپوں تک پہنچائے ہیں’۔ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ معاملہ امریکی نائب صدر جو بائیڈن کے ساتھ بھی اٹھایا تاہم انھوں نے اس واقعے سے لاعلمی کا اظہار کیا۔

واضح رہے کہ امریکا شام میں داعش سے مقابلے کے لیے کردوں کی تنظیم وائی پی جی کو اپنا اسٹریٹجک پارٹنر تصور کرتا ہے اور اس نے کرد اکثریتی علاقے کوبانی میں 2014 میں ہتھیار مہیا کیے تھے، جن کے حوالے سے طیب اردگان کا کہنا ہے کہ ان میں سے آدھے ہتھیاروں پر 2014 کے آخر میں داعش نے قبضہ کرلیا تھا۔

یاد رہے کہ شام میں 2011 سے متعدد گروپ بشار الاسد کی حکومت کے خلاف مسلح کارروائیوں میں مصروف ہیں جس کے نتیجے میں ایران اور بشار الاسد کے درمیان ایک معاہدے کی وجہ سے پاسداران انقلاب نے شامی فورسز کی مدد کے لیے مذکورہ جنگ میں شمولیت اختیار کی۔جبکہ مذکورہ خانہ جنگی میں روس بھی شامی فورسز کو مدد فراہم کررہا ہے تاہم شامی حکومت اور ان کے اتحادیوں کا دعوی ہے کہ امریکا اور ترکی عسکریت پسندوں کو براہ راست ہر قسم کی مدد جبکہ سعودیہ سمیت دیگر خلیجی ممالک ان کی حمایت کررہے ہیں۔ترکی کی فورسز شام میں موجود کرد عسکریت پسندوں اور داعش کے خلاف فضائی کارروائیاں کررہی ہے ادھر امریکا اور اس کے اتحادی بھی داعش اور دیگر عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ میں شریک ہیں تاہم کرد عسکریت پسند ان کا ہدف نہیں ہیں۔