آتش فشاں کا دہانہ بند نہ کریں ورنہ۔۔۔

275

پنجاب کا ایک بہت خوبصورت شہر بہاولپور بھی ہے۔ یہ اس وقت بھی خوبصورت، سرسبز و شاداب تھا جب پاکستان بالکل ہی نو زائیدہ تھا۔ نہایت پْر سکون اور میٹھی میٹھی سرائیکی زبان بولنے والا۔ اس شہر میں بہاولپوری سرائیکیوں کے علاوہ اگر کسی اور زبان کے بولنے والے آپ کو ملیں گے تو ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے اردو بولنے والے ملیں گے مگر کسی نے بھی ان کے بھائی بھائی ہونے میں ذرا بھی فرق محسوس نہیں کیا ہوگا۔ جن دنوں پورے ملک میں سیاسی درجہ حرارت اپنے عروج پر ہوتا ہے اور پورے ملک میں نوبت مار پیٹ اور ایک دوسرے کی عزت و آبرو کی پامالی سے بڑھتے بڑھتے جان و مال کے عدم تحفظ تک جا پہنچتی ہے اس وقت بھی بہالپور سیاسی سر گرمیوں کے باوجود شاید ہی کسی مقام پر مار کٹائی کی نوبت تک پہنچا ہو۔ اتنے پرسکون اور میٹھے شہر کو کسی نے دیکھا ہو اور اس کا گزر وحدت المعروف ون یونٹ کالونی سے براستہ پنجاب پرنٹنگ پریس فرید دروازے کی جانب ہوا ہو تو ٹھیک وحدت کالونی کے فوراً بعد ایک طویل دیوار کنٹونمنٹ بستی کی آتی ہے۔ اس میں ایک بڑا راستہ جو ترچھا گزرتا ہوا ایک ایسی بستی کی جانب جا نکلتا تھا جو اس راستے سے گزرنے والوں کا دو تین کلو میٹر کا راستہ بچا دیا کرتا تھا۔ ایک دن اس راستے کو بند کر کے چھوٹی بڑی گاڑیوں کا گزرنا بند کردیا گیا لیکن سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں کے لیے ابھی تک راستہ کھلا ہی رکھا گیا تھا۔ نازک مزاج لوگوں کو یہ بات بھی پسند نہیں آئی تو راستہ اتنا تنگ کر دیا گیا کہ پیدل گزرنے والے بھی بصد مشکل وہاں سے گزر پاتے تھے۔ چند دنوں بعد اسے بھی اینٹوں سے چن دیا گیا۔ اگلے دن میرا وہاں سے گزر ہوا تو مجھے چنی ہوئی وہ دیوار گری ہوئی نظر آئی۔ اگلے دن دیوار دوبارہ تعمیر کر کے وہاں دیوار سوکھنے تک پہرا بٹھا دیا گیا۔ چار پانچ دن بعد میرا پھر گرز ہوا تو ایک الگ ہی منظر نگاہوں کے سامنے تھا۔ عوام نے نہ صرف پورے گیٹ کی دیوار ڈھائی ہوئی تھی بلکہ طویل دیوار تین چار مقامات سے مزید توڑ دی گئی تھی۔
یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آخری حد تک لوگ کسی پابندی کو برداشت کر سکتے ہیں۔ جب تک پیدل گزرنے والوں کے لیے گنجائش رکھی گئی تھی، لوگوں کا جوش و جذبہ کسی حد تک قابو میں رہا لیکن جب راہیں بالکل ہی مسدود کر دی گئیں تو غیظ و غضب صرف ایک راستہ کھول دینے تک محدود نہیں رہا بلکہ کئی مقامات سے پھوٹ بہا۔ ایک جمہوری حکومت میں ایک جانب تو عدل و انصاف کے سارے دروازوں پر توپوں اور طیاروں کے پہرے بیٹھے ہوں اور دوسری جانب لوگوں سے بولنے اور احتجاج کرنے کے حقوق تک چھین لیے جائیں تو نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے۔پابندیاں کسی بھی قسم کی ہوں اور ظلم و زیادتی کسی بھی نوعیت کی، ممکن ہی نہیں ہوتا کہ لوگوں کے آتش فشانی کے لاوے کو پھٹ کر بہنے سے روکا جا سکے۔ اگر ان کو ہر جانب سے مسدود کرکے رکھ دیا جائے گا تو پھر لاوہ صرف اپنے قدرتی راستے ہی سے نہیں پوری زمین کو پھاڑ کر بیسیوں جانب سے بہہ کر نکل سکتا ہے۔ موجودہ دور حکومت میں کوئی ایک معاملہ بھی ایسا نہیں جس کے متعلق یہ کہا جا سکے کہ وہ حکومت کے اپنے قابو میں ہے۔ اگر وہ کوئی ایسا قدم اٹھاتی بھی ہے جس سے عام آدمی کو کچھ سہولت حاصل ہو جائے تو مافیاؤں کے آگے اس کی ایک چل کر نہیں دیتی۔ پٹرول سستا کیا جائے تو پمپ بند کر دیے جاتے ہیں۔ چینی، آٹا اور کھانے پینے کی اشیا ذخیرہ کر لی جاتی ہیں، ٹراسپورٹ ہڑتال پر چلی جاتی ہے، دوائیاں مارکٹوں سے اٹھالی جاتی ہیں، ڈاکٹر ہڑتال پر چلے جاتے ہیں، وکلا، وکلا گردی شروع کر دیتے ہیں اور کارخانے دار کارخانوں میں تالے لگا دیتے ہیں۔ اس پر ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اگر حکومت مخالف جماعتیں متحد ہو کر ایک کمزور اور بے بس حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں تو ان کے رہنماؤں کو غدار، ملک کے لیے خطرہ، امن و امان میں بگاڑ کا سبب اور اسی طرح کے ہزاروں گھسے پٹے الزامات لگا کر پہلے تو ان کی گھیرا گھاری ہوتی ہے، گرفتاریاں کی جاتی ہیں اور اگر پھر بھی وہ قابو میں نہ آ سکیں تو ان کی تحریر، تقریر یہاں تک کہ تصویر تک پر پابندیاں عائد کر کے ان کی آوازوں کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا جاتا ہے۔
دنیا کا کوئی بھی انسانی معاشرہ پابندیوں، حد سے بڑھی بے انصافیوں، ظلم و زیادتیوں اور اظہارِ رائے کی بے جا جکڑ بندیوں کو بہت دیر تک برداشت نہیں کر سکتا۔ جب ایسی کوئی بھی بے جا سختی طول پکڑ جاتی ہے تو پھر دیوار صرف اس کی پرانی گزرگاہ ہی سے نہیں، جگہ جگہ سے توڑ دی جاتی ہے۔ ایک ایسی حکومت جس کے کسی بھی شے کی بڑھی ہوئی قیمت میں دو روپے کم کر دینے کے حکم کو بھی کوئی ماننے کے لیے تیار نہ ہو کیا وہ حسب مخالف کی اظہار رائے کا گلا گھونٹنے کی کوشش پر عمل در آمد کرانے میں کامیاب ہو سکتی ہے؟۔ اظہار رائے کا گلا گھونٹنے کے بجائے بہت ضروری ہے کہ جائز راستوں کو مسدود نہ کیا جائے۔ اپنے حکومتی امور درست کیے جائیں۔ مہنگائی پر قابو پایا جائے اور سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے بجائے ہر قسم کی مافیاؤں کے خلاف سخت سے سخت کارروائیاں عمل میں لائی جائیں تاکہ عوام کو سہولتیں میسر آ سکیں ورنہ عوام کے ذہنوں میں پکنے والا لاوہ کسی بھی وقت ایک بڑی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔