عمران خان کا اپنی ہی انتظامیہ پر عدم اعتماد

61

یہ بات تو پاکستان میں طے ہے کہ عوام کی رائے سے خواہ کوئی بھی حکومت تشکیل پا جائے، حتیٰ کہ کوئی ایسی خوش قسمت حکومت ہی کیوں نہ ہو جس کو 100 فی صد نشستیں ہی کیوں نہ حاصل ہو جائیں، وہ اس ملک میں کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی برپا نہیں کر سکتی۔ ویسے بھی ہماری اسمبلیاں ہوں یا نام نہاد سینیٹ، ان کا قانونی دائرہ عمل فقط قانون سازی ہی ہے۔ بے شک انہوں نے غیر اعلانیہ طور پر کچھ ایسے بھی اختیارات حاصل کر لیے جس کی بنیاد پر وہ ترقیاتی فنڈز پر بھی قابض ہو گئے ہیں لیکن اصولی طور پر یہ دونوں ادارے ’’مقننہ‘‘ ہی کہلاتے ہیں۔ ترقیاتی فنڈز پر اختیار مقامی حکومتوں کے ہوا کرتے ہیں لیکن بد قسمتی سے ایوب خان اور پرویز مشرف کے دور میں دو مرتبہ بنائی جانے والی مقامی حکومتوں کے علاوہ کبھی ایسا ہوا ہی نہیں کہ ترقیاتی فنڈز کبھی گراس روٹ لیول تک منتقل ہوئے ہوں۔
موجودہ آئین و قانون کا جائزہ لیا جائے تو یہ بہر لحاظ ایک مکمل آئین ہے اور اس میں ہر جرم کی سزا اور ہر ملک دشمن عزائم رکھنے والے کے لیے تعزیرات موجود ہیں۔ عوام کی فلاح و بہبود کا جامع پروگرام، ہر قسم کے عوامی حقوق اور ان کے تحفظ کا مکمل نظام ہے۔ پاکستان کے جتنے بھی ادارے ہیں ان کے دائرہ عمل کے متعلق حدود کا تعین آئین پاکستان میں موجود ہے۔ غرض کوئی بھی ایسا شعبۂ زندگی نہیں جس کے متعلق قانون سازی نہیں کی گئی ہو۔ اتنے مکمل آئین و قانون کے باوجود پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ کوئی ادارہ بھی ایسا نہیں جو اپنے قانونی دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرنے کا عادی ہو۔ انسانی معاشرے میں قانون کی حدود سے باہر نکل کر کسی فرد، گروہ، پارٹی یا ادارے کا قانون ہاتھ میں لے لینا کوئی انہونی نہیں لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے جن کو انتظامیہ کہا جاتا ہے، لاقانونیت پھیلانے والوں کے خلاف حرکت میں آجاتے ہیں اور ایسے سارے عناصر کے خلاف آئین و قانون کے مطابق کارروائیاں عمل میں لاتے ہیں۔
لفظ انتظامیہ بے شک ایک چھوٹا سا لفظ ہے لیکن اس کا دائرہ عمل بہت ہی زیادہ وسیع ہوتا ہے۔ انتظامیہ کے تحت ملک کے بہت سارے مقتدر، خود مختار، ہر قسم کے جدید آلات و ہتھیار سے لیس ادارے شامل ہوتے ہیں جو کسی بھی خلاف آئین و قانون کارروائیوں کے خلاف فوراً حرکت میں آ جاتے ہیں اور کسی بھی امتیاز اور لحاظ کے بغیر اپنی کارروائی کرنے کا مکمل اختیار رکھتے ہیں۔ یہ سارے ادارے قانونی طور پر حکومت کے تحت آتے ہیں اور حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے وہ ان سے قانون کے مطابق کام لے اور ملک میں بہر لحاظ امن و امان کو بحال رکھے۔ موجودہ حکومت پاکستان کی وہ پہلی حکومت ہے جس کے متعلق یہ واضح تاثر ہے کہ تمام ادارے اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وزیر اعظم سمیت ان کی پوری کابینہ بھی دن میں درجنوں بار اس بات کی یقین دہانی کراتی نظر آتی ہے اور خود پاکستان کے سارے اداروں کے ترجمان آئینی حدود کے مطابق حکومت سے اپنے ’’تعاون‘‘ کا یقین دلاتے رہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسی حکومت جس کے دعوں کے مطابق سارے ادارے اس کے پیج پر ہیں اسے اپنی ٹائیگر فورس بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ موجودہ حکومت سے پہلے اسی قسم کی غلطی بھٹو کے دور حکومت میں بھی ہوئی تھی۔ ایف ایس ایف بنائی گئی جس کا مقصد مکمل طور پر اپنی حکومت کو تحفظ دینے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ اختیارات دینے کے بعد جدید ترین ہتھیار سے لیس کرنیکی منصوبہ بندی کر لی گئی تھی لیکن اس آخری مرحلے سے قبل ہی ملک میں مارشل لا کا نفاذ عمل میں آ گیا تھا۔ ایف ایس ایف بنانے کا مقصد اس وقت کی حکومت کا اپنے ہی ملک کی انتظامیہ پر عدم اعتماد کے علاوہ کیا اور بھی کچھ تھا؟۔ اسی طرح کیا ملک میں ہر قسم کی با اختیار انتظامیہ ہونے کے باوجود ٹائیگر فورس کا بنایا جانا اپنی ہی انتظامیہ پر کھلا عدم اعتماد نہیں؟۔
عمران خان کا یہ اعلان سن کر بڑی حیرت ہو رہی ہے جس میں انہوں نے ٹائیگر فورس سے اپیل کی ہے کہ وہ ملک میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں ان کی مدد کرے۔ ایک تو غور طلب بات یہ ہے کہ ٹائیگر فورس قانونی طور پر ان کی کیا مدد کر سکتی ہے اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ کیا حکومت کے پاس مہنگائی کو قابو میں لانے کے لیے کوئی بھی ادارہ موجود نہیں۔ اگر حکومت نجی طور پر آٹھ دس لاکھ افراد کی فورس تیار کر سکتی ہے تو پھر وہ سیاسی پارٹیاں جو اپنے اور اپنے دفاتر کی محافظت کے لیے کچھ ’’رضاکار‘‘ تیار کرتی ہیں تو ان کا یہ عمل غیر قانونی کیسے شمار کیا جائے گا۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ مہنگائی کے اسباب پر قابو پائے اور منافع خوروں پر نظر رکھے لیکن اس کے لیے ذاتی فورس کسی بہت ہی بڑی خرابی کا سبب بن سکتی ہے۔ امید ہے کہ موجودہ حکومت اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرے گی اور ہر اس کام سے گریز کریگی جو آئین و قانون سے ماوریٰ ہو۔ ہر حکومت کا کام اپنے ملک کی انتظامیہ پر بھروسا کرنا ہوتا ہے بصورت دیگر وہ خود اپنے مسائل پیدا کرنے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔