مولانا عادل خان کی المناک شہادت

189

جامعہ فاروقیہ کے مہتمم اور وفاق المدارس پاکستان کے سابق سربراہ مولانا سلیم اللہ خان کے صاحبزادے مولانا محمد عادل خان کو ان کے ڈرائیور مقصود احمد سمیت شاہ فیصل کالونی میں دہشت گردوں نے گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ تین دہشت گرد نے دارالعلوم کورنگی سے مولانا عادل کا پیچھا کیا اور شمع شاپنگ کے قریب انہیں شہید کر دیا۔ مولانا عادل قومی وحدت اور مذہبی منافرت کے خلاف کام کررہے تھے ان کا قتل عالمی سازش ہے۔ گزشتہ دنوں دس محرم کو جب ایک مکتبہ فکر کے چند شرپسند اور فرقہ پرست افراد کی جانب سے شر انگیزی کی گئی اور صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کی گئی تو مولانا عادل نے اس گستاخی کے خلاف تمام مسالک کے علماء کرام کو جمع کیا اور بھرپور احتجاج کیا تھا۔ بین الاقوامی قوتیں پاکستان کو کمزور کرکے اسے فرقہ واریت کی آگ میں دھکیلنا چاہتی ہیں اور پاکستان میں شام اور عراق جیسی صورتحال پیدا کرنا چاہتی ہیں۔ ایم اے جناح روڈ پر دس محرم کے جلوس میں صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کر کے بین الاقوامی قوتوں نے ملک میں خانہ جنگی کی جو بساط بچھائی تھی اس سازش کو تمام مکاتب فکر کے علماء کرام اور عوام نے اپنے تحمل اور صبر کے ذریعے ناکام بنادیا تھا۔ مولانا عادل کی شہادت پر بھی ان کے لاکھوں طلبہ اور علماء کرام نے جس صبر کا مظاہرہ کیا وہ قابل تعریف ہے۔
پاکستان کے حالات خراب کرنے کے لیے گزشتہ تین ماہ سے بھارت ودیگر عالمی قوتیں پاکستان میں شیعہ سنی فسادات کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ دس محرم کو جن افراد نے صحابہ کی گستاخی کی اہل تشیع کی جانب سے ان سے برات کا اعلان بھی کیا گیا۔ لیکن ایک ملزم کے بیرون ملک فرار کی اطلاع اس بات کو ثابت کر رہی ہے کہ گستاخ صحابہ کو حکومتی سرپرستی حاصل تھی۔ ادھر افغانستان، شام، عراق امریکا کے ہاتھ سے نکلتے جارہے ہیں امریکا پاکستان کا گھیرا تنگ کر رہا ہے اور اس کے لیے بھارت اور پاکستان میں موجود اس کے ایجنٹوں کو ایک روڈ میپ دیا گیا ہے جس کے ذریعے ملک میں فرقہ واریت کی آگ لگا کر اسے خانہ جنگی کی دلدل میں دھکیلا جائے گا۔ اس قبل دہشت گردوں نے مفتی تقی عثمانی پر شاہراہ فیصل پر حملہ کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مفتی تقی عثمانی کو محفوظ رکھا جبکہ ان کے ڈرائیور اور گارڈ اس حملے میں شہید ہوگئے تھے۔ شہر میں ہزاروں کی تعداد میں پولیس رینجرز وقانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی کے باوجود اس طرح کی دہشت گردی کی وارداتیں ہونا اور شہر میں قدم قدم پر سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہونے کے باوجود دہشت گردوں کا گرفتار نہ ہونا ایک المیہ ہے۔
بلاشبہ مولانا عادل خان کا قتل ناقابل تلافی نقصان ہے شر پسند عناصر شہر کے حالات خراب کرنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر عادل نے اپنی پوری زندگی غلبہ دین کے لیے وقف کی ہوئی تھی ان کی شہادت امت مسلمہ کے لیے ایک اندوہناک سانحے سے کم نہیں ہے۔ پیشگی اطلاع کے باوجود ایک عالم باعمل کا قتل حکومت کی ناکامی اور نااہلی کی علامت ہے۔ حکومت عوام کی جان ومال کی حفاظت میں مکمل طور ناکام ہوگئی ہے۔ موجودہ حالات میں ہم سب کا فرض ہے کہ ہم اسلام دشمن قوتوں کی سازشوں کو سمجھے اور ان کی ہر سازش کو ناکام بنایا جائے۔ مولانا عادل خان کے قتل کے پیچھے را اور اس کے ایجنٹوں کا ہاتھ ہے۔ صبر اور دانش مندی کے ساتھ ہمیں اپنے، اپنے دین اور وطن کے دشمن کا مقابلہ کرنا ہے اور انتقام کی آگ کو بجھا کر دشمن کی ہر سازش کو ناکام بنانا ہے۔ مولانا عادل کی شہادت پر کراچی سے لیکر خیبر تک ہر ذی شعور محب اسلام اور محب وطن غم میں ڈوبا ہوا ہے۔ مولانا سلیم اللہ خان مرحوم ومغفور کا جانشین آج ملک دشمن اور اسلام دشمن قوتوں کی گولیوں کی بھینٹ چڑھ گیا ہے لیکن راہ حق کے لیے یہ نہ کوئی پہلی شہادت ہے اور نہ ہی آخری شہادت۔ ہمیں اپنے کھلے اور چھپے ہر دشمن کی سازش کو سمجھنا ہو گا اور اپنے اتحاد کے ذریعے دشمن کو ناکام بنانا ہوگا۔ علماء کرام پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اتحاد امت کے لیے کام کریں۔ امت کا اتحاد ہی دشمنوں کی موت ہے۔ مولانا عادل کے خون کا ایک ایک قطرہ ملک دشمن اور اسلام دشمن قوتوں سے اپنا قصاص وصول کرے گا اور ان کی مظلومانہ شہادت پاکستان کے حکمرانوں اور قانوں نافذ کرنے والے اداروں پر ایک قرض ہے۔ دس محرم کے سانحہ کے بعد انہوں نے اپنی حکمت اور دور اندیشی کے ذریعے عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کیا تھا اور ان کے چاہنے والے ان کے مشن پر عمل کرتے ہوئے اسلام دشمن قوتوں کے تمام حربوں کو نہ صرف یہ کہ ناکام بنائیں گے اور ان کی تمام سازشوں کو کچل کر ملی یکجہتی کو فروغ دیا جائے گا۔ حکومت کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لے۔ پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے۔ بیرونی قوتوں کے ایجنٹ پاکستان میں دیدہ دلیری کے ساتھ اس کی اساس پر حملہ آور ہیں۔ انہیں لگام اور نکیل نہ دی گئی تو پھر پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہوگا۔