امریکا: گنتی ختم ہونے پر بھی انتخابات مکمل نہیں ہونگے ، فیصلہ عدالت کرے گی

106

 

واشنگٹن (رپورٹ: مسعود ابدالی) امریکی صدارتی انتخاب کی ووٹنگ ختم ہوئے 36 گھنٹے سے زیادہ گزرچکے لیکن اب تک صورتحال واضح نہیں۔ گنتی مکمل ہوجانے پر بھی انتخابات مکمل نہیں ہونگے اور معاملہ عدالت طے کریگی۔تجزیہ نگار و ماہرین قیاس و امکانات کے گھوڑے دوڑا رہے ہیں لیکن الیکٹورل کالج نظام کی وجہ سے حقیقت پسندانہ پیش گوئی ممکن نہیں۔ روایتی چناؤ کی صورت میں جو بائیڈن جشن فتح منارہے ہوتے کہ انہیں 36 لاکھ ووٹوں کی برتری حاصل ہے لیکن کلیہ انتخاب کے اصول پر انہیں اب تک صرف 254 ووٹ ملے ہیں جبکہ کامیابی کے لیے
270 ووٹ ضروری ہیں۔ 5 ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی جاری ہے جن میں سے ایریزونا اور جوئے کے عالمی مرکز نواڈامیں جو بائیڈن کو خفیف برتری حاصل ہے۔ دوسری طرف پینسلوانیا، شمالی کیرولینا اور جارجیا میں صدر ٹرمپ جو بائیڈن سے کچھ آگے ہیں۔ کلیہ انتخاب کی وجہ سے امریکی صدر کا انتخاب، سیاست سے زیادہ ریاضی کی مشق ہے اور ریاضی کے اصول پر صورتحال کچھ اس طرح ہے کہ اگر جو بائیڈن ایریزونا (11) اور نواڈا (5) جیتنے میں کامیاب ہوگئے تو قصر مرمریں کی کنجی 4 سال کے لیے ان کے نام ہوجائیگی جبکہ صدر ٹرمپ کو اپنی صدارت برقرار رکھنے کے لیے پانچوں ریاستوں میں جیتنا ہوگا۔ چنانچہ شماریات کے اصول پر جو بائیڈن کی کامیابی کا امکان زیادہ ہے لیکن سیاسیات کی رو سے صدر ٹرمپ کی فتح بھی خارج از امکان نہیں کہ جب تک آخری ووٹ گن نہ لیا جائے کچھ بھی حتمی نہیں۔ حالیہ انتخاب کا سب سے اہم بلکہ منفرد پہلو ووٹ ڈالنے کا تناسب ہے۔ امریکا کے صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالنے کا تناسب عام طور سے 53 سے 56 فیصد رہتا ہے لیکن اس بار 65 فیصد سے زیادہ امریکیوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ اندازے کے مطابق مجموعی طور پر 15 کروڑ ووٹ ڈالے گئے، 2016ء کے انتخاب میں 13 کروڑ 66 لاکھ ووٹ پڑے تھے۔ امریکی کانگریس کے تینوں مسلمان ارکان یعنی اندرے کارسن نے انڈیانا، محترمہ الحان عمر نے منیسوٹا اور محترمہ رشیدہ طالب نے مشی گن سے اپنی نشستیں برقرار رکھیں اور ان سب کو 65 فیصد سے زیادہ ووٹ ملے۔ الحان عمر و رشیدہ طالب صدر ٹرمپ اور مسلم مخالف لابی کا خاص ہدف تھیں۔ امریکی تاریخ میں پہلی بار خصوصی شخصیت (transgender) کی حامل سارہ مک برائیڈ ڈیلوئر (Delaware) سے ریاستی سنیٹ کی رکن منتخب ہوگئیں۔ ڈیلوئیر جوبائیڈن کی آبائی ریاست ہے۔ 3 نومبر کو امریکی صدر کے ساتھ سینیٹ کی 35 اور ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) کی جملہ 435 نشستوں پر انتخاب ہوئے۔ سینیٹ کی جن نشستوں پر منگل کو انتخاب ہوئے ان میں سے 23 نشستیں ریپبلکن ارکان کی مدت پوری ہونے پر خالی ہوئی ہیں اور ڈیموکریٹس اپنی 12 نشستوں کا دفاع کررہے ہیں۔ موجودہ سینیٹ میں 2 آزاد اتحادیوں کو ملا کر ڈیموکریٹس کا پارلیمانی حجم 47 ہے۔ ڈیموکریٹس الابامہ سے اپنی نشست ہارگئے لیکن کولوریڈو کی نشست ریپبلکن سے چھین کر انہوں نے مقابلہ برابر کردیا۔ مشی گن کی اضافی سیٹ ملنے کے بعد اب 100 رکنی سینیٹ میں ڈیموکریٹس کی تعداد 48 ہوجائیگی اور 48 نشستوں پر ریپبلکن براجمان ہونگے۔ جارجیا کی دونوں نشستوں پر کسی بھی امیدوار کو 50 فیصد ووٹ نہیں ملے لہٰذا یہاں دسمبر میں دوسرے مرحلے یا run-off انتخابات ہونگے۔ نتائج کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹس واضح اکثریت حاصل کرلیں گے لیکن انکا حجم کچھ کم ہوتا نظر آرہا ہے اس بار ووٹوں کا تناسب بہت زیادہ ہونے کا سبب بڑے پیمانے پر ووٹنگ کا اہتمام ہے۔ امریکا میں عام انتخابات سے دوہفتہ پہلے قبل از ووٹنگ (early voting)کا انتظام کیا جاتا ہے۔ عام طور سے شہروں میں ایک درجن کے قریب voting early کے مراکز قائم کئے جاتے ہیں لیکن کورونا کی بنا پر اس بار ان مراکز کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔ مختلف مساجد میں بھی پولنگ مراکز قائم کیے گئے۔ کئی جگہ drive thruووٹنگ کا اہتمام کیا گیا جہاں لوگ اپنی گاڑیوں میں بیٹھے بیٹھے ووٹ ڈال سکتے تھے۔ اسکے علاوہ بذریعہ ڈاک ووٹنگ پر پابندیوں کو نرم کردیا گیا جسکی وجہ سے 45 فیصد رائے دہندگان نے بذریعہ ڈاک ووٹ ڈالے، ووٹنگ بذریعہ ڈاک پر صدر ٹرمپ کو ابتدا ہی سے سخت اعتراض تھا۔ انکا کہنا تھا کہ ڈیموکریٹک پارٹی انتخابی عملے سے مل کر کراچی کی اصطلاح میں ٹھپے باز ی کریگی۔ انہوں نے اس ضمن میں عدالت عظمیٰ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا لیکن عدالت عظمیٰ نے قبل ازمرگ واویلہ مسترد کرتے ہوئے انہیں انتخابات کے دوران بدعنوانی کی صورت میں عدالت سے رابطے کی ہدایت کی۔ صدر ٹرمپ نے اس بات پر بھی فکر مندی کا اظہار کیا کہ ڈاک کے ذریعے آنے والے ووٹوں کی گنتی لامحدود مدت تک جاری رہ سکتی ہے۔ اصول کے مطابق ڈاک کے ذریعے آنے والا ہر وہ ووٹ گنا جاتا ہے جو یوم انتخاب کے روز پولنگ کا وقت ختم ہونے سے پہلے حوالہ ڈاک کردیا جائے چنانچہ انکی گنتی انتخابات کے بعد کئی دن تک جاری رہتی ہے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ جو بیلٹ 3 نومبر کو موصول ہوجائیں صرف انہی کو شمار کیا جائے۔ صدر کی درخواست پر وفاقی جج نے محکمہ ڈاک کے حکام کو ہدایت کی کہ منگل کو وصول ہونے والے تمام بیلٹ پیپر اسی شب انتخابی مراکز پہنچانے کااہتمام کیا جائے، اب جبکہ انتخابی نتائج آخری مرحلے میں ہیں صدر ٹرمپ عدالت کو دہائی دے رہے ہیں۔ تاہم مختلف ریاستوں میں انہوں نے متضاد موقف اختیار کیا ہے۔ پنسلوانیہ، شمالی کیرولینا اور جارجیا میں جہاں انہیں برتری حاصل ہے وہ دھاندلی کا الزام لگا کر گنتی روکنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ دوسری طرف وہ چاہتے ہیں کہ ایریزونا اور نواڈا میں ایک ایک ووٹ کو گنا جائے۔ وسکونسن اور مشی گن میں انہوں نے دوبارہ گنتی کی درخواست کی ہے جہاں جوبائیڈن کی برتری ایک فیصد سے کم ہے۔ خیال ہے کہ گنتی مکمل ہوجانے پر بھی انتخابات مکمل نہیں ہونگے اور معاملہ عدالت طے کریگی۔