کراچی: کم عمری میں شادی اور مذہب تبدیلی کیس میں میڈیکل بورڈ نے آرزو کی عمر 14- 15 سال قرار دے دی ہے جبکہ عدالت نے آرزو کو واپس دارالامان منتقل کرنے کی ہدایت کردی۔
سندھ ہائی کورٹ میں 9 نومبر مذہب کی تبدیلی کے الزام اور کم عمری میں شادی کے کیس میں لڑکی آرزو فاطمہ کی سیل شدہ میڈیکل رپورٹ عدالت کے روبرو پیش کی گئی، میڈیکل رپورٹ کےمطابق آرزو کی عمر 14 – 15 سال کے درمیان ہے۔
عدالت کی جانب سے تشکیل دیا گیامیڈیکل بورڈ 5 رکنی ممبران پر مشتمل تھا، جس نے آرزو فاطمہ کا میڈیکل چیک آپ کے بعد اس کی عمر کا تعین کیا۔ درخواست گزار کو شیلٹر ہوم سے عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس موقع پر عدالت نے لڑکی آرزو فاطمہ سے دوبارہ سوال پوچھا کہ کیا آپ نے کسی دباؤ میں اسلام قبول کیا ہے؟، جس پر آرزو نے عدالت میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ نہیں، میں نے کسی کے دباؤ میں اسلام قبول نہیں کیا۔ اس موقع پر آرزو کے وکیل نے کہا کہ لڑکی بار بار کہہ چکی ہے کہ اس پر کوئی دباؤ نہیں۔
عدالت نے آرزو سے مزید سوال کیا کہ کیا آپ والدین کے پاس جانا چاہتی ہیں یا دارالامان؟ جس پر آرزو فاطمہ نے عدالت کو روتے ہوئے جواب دیا کہ میں اپنے شوہر کے پاس جانا چاہتی ہوں، ورنہ میں مر جاؤں گی۔
دوران سماعت تفتیشی افسر کا کہنا ہے کہ کیس میں چائلڈ میرج ایکٹ کی دفعات شامل کرلی گئیں ہیں۔ عدالت نے تفتیشی افسر کو حکم دیتے ہوئے کہا کہ کم عمری کی شادی کے قانون کی روشنی میں کارروائی کی جائے۔ آرزو کو ان افراد سے ملاقات کی اجازت دی جائے جن سے وہ ملنا چاہے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ لڑکی نے واضح کہا ہے کہ اس نے مرضی سے اسلام قبول کیا۔ رپورٹ کے مطابق لڑکی عمر 14- 15 سال ہے، جب کہ نادرا دستاویزات کے مطابق آرزو کی عمر 13 سال ہے۔ عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ بادی النظر میں آرزو پسند کی شادی نہیں کرسکتی ۔ سندھ ہائی کورٹ نے کيس کی سماعت 2 ہفتے کیلئے ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 31 اکتوبر کو کراچی کے جوڈشیل مجسٹریٹ جنوب کی عدالت میں 13 سالہ آرزو راجا کے والدین کی جانب سے حفاظتی تحویل میں لینے کیلئے درخواست دائر کی گئی تھی۔ والدین کا کہنا تھا کہ 13 سالہ آرزو کو اغوا کیا گیا اور اسے زبردستی مسلمان کرکے 44 سالہ آدمی سے اس کی شادی کی گئی۔