کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) ہماری ترجیحات بدل گئی ہیں،حصول علم اور تقویٰٰ پر حصول دولت اور اقتدار کو ترجیح دی جارہی ہے۔ہم اخلاقی اعتبار سے تنزلی و انحطاط کا شکار ہیں۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لیے ہمیں اپنی ترجیحات طے کرنا ہوں گی۔والدین،اساتذہ اور علماء کو نئی نسل کی تربیت پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔علم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی ہے۔ علم کے ذریعے آدمی ایمان و یقین کی دنیا آباد کرتا ہے،بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے،بروں کو اچھا بناتا ہے،دشمن کو دوست بناتا ہے،بے گانوں کو اپنا بناتا ہے اور دنیا میں امن و امان کی فضا پیدا کرتا ہے،معاشرے میں بہتری لانے اور اخلاقی تعلیم پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے،موجودہ دور میں دولت اور طاقت اسٹیٹس کو بن گیاہے،لیکن ہماری حقیقی کامیابی تقویٰ اور علم کی بنیاد پر ہے۔ان خیالات کا اظہار وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے مرکزی ترجمان مولانا عبدالقدوس محمدی،جامعہ کراچی شیخ زید اسلامک سینٹر کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹرجہاں آرا لطفی اور جامعہ کراچی شعبہ اسلامی تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد سہیل شفیق نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے مرکزی ترجمان مولانا عبدالقدوس محمدی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت اور کامیابی کے لیے اپنا دین بھیجا ہے اور یہ جو صورتحال آج ہمیں نظر آرہی ہیں کہ مال و دولت،قوت اورطاقت کو اہمیت حاصل ہے یہ سب کا سب ظاہری طور پر ہے یہ سب کچھ ظاہری نقشہ ہے۔ حقیقی کامیابی علم اور تقویٰ کو ہی حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے پیارے آقاﷺ ،انبیاء کرام،صحابہ کرام اور دیگر جتنی ہستیاں تشریف لائیں ان سب کے سب نے اپنے اپنے دور میں اسی بات کا درس دیا کہ اللہ رب العزت کے یہاں علم اور تقویٰ کو اہمیت حاصل ہے۔یہ دنیا کی زندگی عارضی ہے ایک آدمی اگر بہت طاقت یا دولت حاصل کرلے لیکن وہ سب کچھ وقتی ہوتا ہے جیسے قارون کو دولت اور فرعون کو طاقت حاصل تھی لیکن وہ ان کے کسی کام نہیں آئی اور جو لوگ علم اور تقویٰ کی بنیاد پر آگے بڑھے تو دنیا میں بھی ان کی عزت اور نام ہے اور آخرت میں ان شاء اللہ ہمیشہ ہمیشہ ان کی زندگی میں ان کے لیے کامیابی ہے۔انہوں نے کہا کہ علم کے ذریعے آدمی ایمان و یقین کی دنیا آباد کرتا ہے،بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے،بروں کو اچھا بناتا ہے،دشمن کو دوست بناتا ہے، بے گانوں کو اپنا بناتا ہے اور دنیا میں امن و امان کی فضا پیدا کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ علم کی فضیلت و عظمت،ترغیب وتاکید مذہب اسلام میں جس بلیغ و دلآویز انداز میں پائی جاتی ہے اس کی نظیر اور کہیں نہیں ملتی ہے،تعلیم و تربیت،درس وتدریس تو گویا اس دین برحق کا جزو لاینفک ہے،کلام پاک کے تقریباً اٹھتر ہزار الفاظ میں سب سے پہلا لفظ جو پروردگار عالم نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر نازل فرمایا وہ اِقرا ہے، یعنی پڑھ،اور قرآن پاک کی چھ ہزار آیتوں میں سب سے پہلے جو پانچ آیتیں نازل فرمائی گئیں ان سے بھی قلم کی اہمیت اور علم کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ علم کی فضیلت اور اس کو حاصل کرنے کی ترغیب کے حوالے سے کثرت سے احادیث بھی وارد ہوئی ہیں،جن میں اہل علم کی ستائش کی گئی ہے اور انہیں انسانیت کا سب سے اچھا آدمی قرار دیا گیا ہے۔اہل علم کا صرف یہی مقام و مرتبہ نہیں ہے کہ انہیں دنیا کی تمام چیزوں پر فضیلت دی گئی ہے اور اس کام میں وہ جب تک مصروف ہیں،اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق اس کے لیے دعا کرتی رہتی ہے،ہم کو صحیح معنوں میں اشرف المخلوقات کے درجہ پر پہنچانا چاہتا ہے،وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حقیقی علم ثابت کرتا ہے،اور اس کو بنی نوع انسان کی حقیقی صلاح و فلاح اور کامیابی و بہبودی کا ضامن بتاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اسی طرح تقویٰ عربی زبان کا لفظ ہے،یہ وقی سے ماخوذ ہے،اسی سے وقایہ ہے جس کا معنی بچاؤ،حفاظت کرنے کے ہیں۔اسی سے واضح ہوجاتا ہے کہ تقویٰ کو تقویٰ کیوں کہا جاتا ہے،کیونکہ یہ ایک انسان کو گناہوں کے ارتکاب سے بچاتا ہے۔معصیتوں سے اس کی حفاظت کرتا ہے۔حرام و ناجائز امور کے سامنے ڈھال ہوتا ہے اسی لیے اس کو تقویٰٰ کہا جاتا ہے۔تقویٰ انسانی زندگی کاشرف ہے اور تقویٰ انسانی زندگی کی وہ صفت ہے جو تمام انبیاء کی تعلیم کا نچوڑ ہے۔اور یہ وہ قیمتی سرمایہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور قرب آسان ہوجاتاہے۔انہوں نے کہا کہ قرآن میں سیکڑوں آیات تقویٰ کی اہمیت وفادیت پر وارد ہوئی ہیں۔تمام عبادات کا بنیادی مقصد بھی انسان کے دل میں اللہ کا خوف اور تقویٰ پیدا کرنا ہے تقویٰٰ کا مطلب ہے پرہیزگاری،نیکی اور ہدایت کی راہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ تقویٰ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کے حاصل ہو جانے کے بعد دل کو گناہوں سے جھجک معلوم ہونے لگتی ہے اور نیک کاموں کی طرف اس کو بے تاہانہ تڑپ ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ کو تقویٰٰ پسند ہے۔ذات پات یا قومیت وغیرہ کی اس کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ تقویٰ دینداری اور راہ ہدایت پر چلنے سے پیدا ہوتا ہے۔تقویٰ اصل میں وہ صفت عالیہ ہے جو تعمیر سیرت و کردار میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔عبادات ہوں یا اعمال و معاملات۔اسلام کی ہر تعلیم کا مقصود و فلسفہ،روحِ تقویٰ کے مرہون ہے۔انہوں نے کہا کہ آج کا انسان اپنی اپنی ذہنی سطح کے اعتبار سے مال و دولت اور قوت و طاقت کے کردار کو اہمیت دیتا ہے لیکن حقیقی اہمیت یا حقیقی کامیابی ہے تقویٰ اور علم میں ہے۔اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ہم سب کو اس حقیقی کامیابی کو سمجھنے اسے اپنانے اور اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جامعہ کراچی شیخ زید اسلامک سینٹر کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹرجہاں آرا لطفی نے کہا کہ جسطرح آپ نے سوال کیا ہے کہ ہمارا دین کہتا ہے فضیلت صرف دو چیزوں کو حاصل ہے تقوے اور علم کو مگر ہمارے معاشرے میں اصل اہمیت طاقت اور دولت کو ہے ایسا کیوں ہے ؟دیکھیے جن دو طاقتوں کا مقابلہ ہم دو طاقتوں سے کر رہے ہیں یعنی تقویٰ اور علم کا طاقت اور دولت سے تو ان میں سے دو پاورز یعنی تقویٰ اور علم کا تعلق اللہ کے ساتھ ہے جبکہ دولت اور طاقت کا تعلق انسانوں سے ہے۔گو کہ یہ دونوں نعمتیں بھی ہیں لیکن یہ اس وقت تک نعمت ہیں جب تک تقویٰ اور علم کے ذریعے ان کا استعمال نہ ہو ورنہ ان دونوں طاقتوں کا مالک شیطان کے منشور پر چل نکلتاہے اور اس کا آلہ کار بن جاتاہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں چونکہ اللہ سے تعلق کمزور پڑ چکا ہے سو اس لیے علم،و تقویٰ کی فضیلت سے لوگ محروم ہوچکے ہیں بلکہ میں کہوں گی کہ علم و تقویٰ کی طاقت سے محروم ہو چکے ہیں۔جب ان دو عظیم الشان طاقتوں سے محروم ہوگئے تو آپ ہی شیطان کا غلبہ ان پر بڑھ رہا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے تمام حواسوں سمیت بھی بد حواسی کا شکار ہیں۔انکے نزدیک اہمیت بھی انہی قوتوں کی رہ گئی ہے جو خود علم و تقویٰ کی محتاج ہیں۔اور یہ کوئی نئی بات بھی نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ خلفاء راشدین اور امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز کے بعد امت مسلمہ پر زیادہ تر لوگ طاقت اور دولت کے ذریعے ہی مسلط ہوئے ہیںحکمران بنے اور من مانیاں کرتے رہے۔یہی امت مسلمہ کا المیہ ہے آج تک۔جامعہ کراچی شعبہ اسلامی تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد سہیل شفیق نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم نے علم اور تقویٰ کی فضیلت بیان کی ہے۔ واضح طور پر کہا ہے کہ علم والے اور بے علم برابر نہیں ہیں۔ اگر تم کسی بات کو نہیں جانتے ہو تو اہل علم سے دریافت کرو۔ تم میں سے اللہ کے نزدیک بہتر وہ ہے جو زیادہ متقی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ عرصہ ہوا ہماری ترجیحات بدل گئی ہیں۔ حصول علم اور تقویٰ پر حصول دولت اور اقتدار کو ترجیح دی جارہی ہے۔ پہلے لوگ ذمہ داری اور خو احتسابی کے پیش نظر مناصب قبول نہیں کیا کرتے تھے۔ آج معلوم ہوتا ہے کہ کسی منصب کا حصول ہی مقصد زندگی بن گیا ہے۔ یعنی ‘تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا’ پہلے بچوں کی تربیت میں خدا خوفی، خود احتسابی کا عنصر شامل ہوا کرتا تھا۔ آج ترجیحات کے بدل جانے سے مقصد زندگی تبدیل ہوگیا ہے۔ مقصد اچھا انسان کار آمد شہری بننے کے بجائے دولت مند اور بااختیار بننا رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے سے اعلیٰ اقدار رخصت ہوچکی ہیں اور ہم اخلاقی اعتبار سے تنزلی و انحطاط کا شکار ہیں۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لیے ہمیں اپنی ترجیحات طے کرنا ہوں گی۔ والدین، اساتذہ اور علماء کو نئی نسل کی تربیت پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ یاد رکھیے علم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی ہے۔ ‘اقرا’ کا قرآنی سبق کو ہم نے بھلادیا ہے اسے پھر سے یاد کرنا ہوگا۔ ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم کو بہر صورت پیش نظر رکھنا ہوگا۔ معاشرے میں ہماری ترجیہات بدل گئی ہے، معاشرے میں بہتری لانے کی ضرورت ہے اخلاقی تعلیم پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے دولت اور طاقت اسٹیٹس کو بن گیاہے، لیکن ہماری حقیقی کامیابی تقویٰ اور علم کی بنیاد پر ہے ہمارے مطمح نظر صالح معاشرے کا قیام ہونا چاہیے ہماری کامیابی اصل میں ایمان تقویٰ اور علم کی بنیاد پر ہے اگر ہم نے ظاہری چیزوں کو اپنا لیا تو پھر یہی ہوگا جو کیچھ ہمیں نظر آرہا ہے یہ کسی صورت ممکن نہیں کہ ہم دولت اور طاقت کی بنیاد پر ترقی کر سکیں۔