نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک) بھارتی حکومت نے کسانوں کے آگے گھٹنے ہوئے مظاہرین سے مذاکرات پر رضامندی ظاہر کردی۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے اپنے بیان میں کہا کہ مظاہرین شاہراہوں اور کاروباری مراکز بند کرنے کے بجائے بات چیت کے ذریعے معاملات طے کریں۔ امیت شاہ نے مظاہرین سے مطالبہ کیا کہ حکومت نے احتجاج کرنے کے لیے ایک علاقہ مخصوص کردیا ہے اور تمام کسان وہاں جاکر مظاہرہ کریں۔ ادھر وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے کہا حکومت کسان تنظیموں کے ساتھ 3دسمبر کو مذاکرات کرے گی، لہٰذا اس دوران تمام لوگ براڑی کے نرنکاری میدان تک محدود رہیں۔ یاد رہے کہ مودی سرکارکے متنازع قانون کے بعد ملک بھر کے کسانوں نے ’ دہلی چلو‘ مارچ کی کال دی تھی، جس کے بعد جمعرات کے روز پنجاب ، ہریانہ اور دیگر ریاستوں سے بڑی تعداد میں مظاہرین نے دارالحکومت کارخ کیا۔ اس دوران مودی سرکار کے ایما پر ہریانہ کی حکومت نے انہیں روکنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کیں اور انہیں دہلی پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ادھر نئی دہلی کی حکومت نے نہتے کسانوں سے نمٹنے کے لیے فوج کو طلب کرلیا اور شہر میں داخل ہونے کے تمام راستوں پر سخت پہرہ لگادیا، تاہم ہفتے کے روز مشتعل کسان تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے نئی دہلی پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔مظاہرین نے دارالحکومت میں بڑی سڑکوں کو بند کردیا۔ کئی مقامات پر سیکورٹی فورسز سے جھڑپیںبھی ہوئیں اور سیکڑوں کسانوں کو گرفتار کرلیاگیا۔ پولیس اور فوج نے کسانوں سے نمٹنے کے لیے ایسے اقدامات کیے،جو عام طور پر ماؤ نواز اور نکسل باغیوں کی سرکوبی کے لیے کیے جاتے ہیں۔ ادھر ٹریکٹروں میں سوار کسان نے احتجاج کو زندگی موت کا مسئلہ بنالیا۔ مقامی میڈیا کے مطابق اکثر کسان اپنے ساتھ 6ماہ کا راشن ساتھ لے کر آئے ہیں، تاکہ سیکورٹی فورسز محاصرہ کرکے رسد کے راستے کاٹ کر بھی ناکام رہیں۔ دارالحکومت میں خوف کی فضا ہے اور احتجاج کے باعث سرکاری و نجی دفاتر بند کردیے ہیں۔