سعودی عرب اور امریکا

104

میں سینیٹ کے بعد کانگریس نے بھی امریکی صدر اوباما کے ویٹو کو مسترد کردیا ہے جس کے بعد نائن الیون کے سانحے کے متاثرین اور ان کے لواحقین کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ امریکا میں سعودی عرب کے خلاف تلافی اور جرمانے کے لیے مالی مقدمات دائر کرسکیں گے۔ اس سے قبل جب یہ بل سینیٹ اور کانگریس میں منظوری کے بعد صدر بارک اوباما کو دستخط کے لیے بھیجا گیا تھا تو انہوں نے اسے ویٹو کردیا تھا۔ اس کے بعد پہلے سینیٹ نے امریکی صدر کے ویٹو کو مسترد کیا اور بل کو قانون بنانے کے لیے ایوان زیریں کانگریس کو بھیجا۔ سینیٹ میں ویٹو کو مسترد کرنے کے چند گھنٹوں کے بعد ہی امریکی کانگریس میں بھی یہ بل مسترد کردیا گیا اور یوں یہ بل قانون کا درجہ اختیار کرگیا جس کے تحت امریکی شہریوں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ امریکی عدالتوں میں سعودی عرب کے خلاف مقدمات دائر کرسکتے ہیں۔
امریکی عدالتوں میں انصاف کی حالت زار کا اندازہ ڈاکٹر عافیہ کے مقدمے اور ان کو دی جانے والی سزا سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ اب اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ امریکی عدالتوں میں سعودی عرب کے خلاف مقدمات کی بھرمار ہوجائے گی اور ہر مقدمے میں مدعی کو کئی کئی کروڑ ڈالر کے ہرجانے کی ڈگری مل جائے گی۔
نائن الیون کے واقعے کو پندرہ برس کا عرصہ گزرچکا ہے۔ اس عرصے میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ نائن الیون کا واقعہ ایک ایسی دہشت گردی کی کارروائی تھی جس میں امریکی ایجنسیاں اور حکومت خود شریک تھی۔ اس بارے میں امریکی حکومت نے جو جو کچھ کہا وہ بعد میں غلط ثابت ہوا۔ جڑواں ٹاوروں کی تباہی سے لے کر پینٹاگون پر حملے تک سب کچھ ایک جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ اس حملے کے ذمے داروں کے بارے میں کیے گئے دعووں کی سچائی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ کئی ہائی جیکر بعد میں زندہ بھی پائے گئے۔ نائن الیون کے واقعے پر گفتگو اس وقت مقصود نہیں ہے۔ اس بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور انٹرنیٹ پر موجود بھی ہے۔ خود امریکا میں نائن الیون ٹرتھ نامی تنظیم قائم ہے جس میں سائنس و جرمیات اور دیگر شعبوں کے اعلیٰ درجے کے نو سو سے زائد ماہرین رکن ہیں اور انہوں نے ہر زاویے سے ثابت کیا ہے کہ یہ واقعہ ایک جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ جب یہ واقعہ جھوٹ ہے تو پھر اس کے ذمے داروں کے بارے میں جو کچھ بھی کہا جائے وہ بھی جھوٹ ہی ہے۔ میں بھی اس وقت نائن الیون کے بارے میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ میں تو سعودی عرب پر مقدمات پر کچھ روشنی ڈالنا چاہتا ہوں۔ آخر سعودی عرب ہی کیوں نشانے پر؟
اس سوال پر گفتگو سے قبل چند حقائق۔ امریکا بھاری قرضوں تلے دبا ہوا ہے۔ امریکی اخراجات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے روز چار ارب ڈالر کا قرض لینا پڑتا ہے۔ یہ قرضے امریکی حکومت نے ملک کے اندر سے بھی لیے ہیں اور باہر سے بھی۔ امریکا کو قرض فراہم کرنے والوں میں سعودی عرب ایک انتہائی اہم ملک ہے۔ اس وقت امریکا سعودی عرب کے 117 ارب ڈالر کا براہ راست مقروض ہے جب کہ اس کے امریکا میں 800 ارب ڈالر کے اثاثے ہیں۔ اب امریکی عدالتوں میں بھاری جرمانے عائد کرنے کا مطلب ان سارے اثاثوں کو ڈکارنا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا میں اور دیگر ممالک کے امریکا میں سعودی عرب سے زاید کے اثاثے ہیں اور امریکا ان ممالک کا بھاری مقروض بھی ہے تو پھر سعودی عرب ہی نشانہ کیوں؟ اور پھر سعودی عرب نے امریکا کو آج تو قرض دیا نہیں ہے اور نہ ہی اس نے امریکا میں آج اثاثے بنائے ہیں۔ یہ چار عشروں سے زاید کی کہانی ہے تو پھر اب سعودی عرب کے اثاثے ہڑپ کرنے کی کارروائی اب کیوں شروع کی گئی؟ یہ وہ اہم ترین سوال ہے جس کے پیچھے ہی ساری کہانی پنہاں ہے۔
میں نے 17ستمبر 2012 کو ایک مضمون سپرد قلم کیا تھا جس کا عنوان تھا ’کیا ایران کے بعد اب سعود ی عرب کی باری ہے ‘۔ پہلے اس مضمون کے چند اقتباس۔
’یہ تو گریٹ گیم کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ یہ گریٹ گیم ہے دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کا قیام۔ اور یہ گریٹ گیم اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا، جب تک سعودی عرب سے نہ نمٹ لیا جائے۔ اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ آل سعود شروع ہی سے امریکی بلاک میں نہ صرف شامل ہیں بلکہ یہ برسر اقتدار آئے ہی ان کی مدد سے ہیں۔ اس کہانی کو میں اپنی کتاب جنگوں کے سوداگر میں بیان کرچکا ہوں۔ موجودہ سعودی حکومت کا بھی یہی رویہ ہے۔ یہ عرب لیگ، قطر، بحرین اور کویت کی مدد سے ہر اس کام کی انجام دہی کے لیے تیار رہتی ہے، جس کا ان کو اشارہ کردیا جائے۔ مگر ان عالمی سازش کاروں کو اپنے غلاموں کی حکومت درکار نہیں ہے۔ یہ اس دنیا پر لازماً ایک شیطانی حکومت کا قیام چاہتے ہیں۔ عراق کا صدام حسین، تیونس کا زین العابدین، لیبیا کا معمر قذافی، مصر کا حسنی مبارک، شام کا بشارالاسد اور اب ایران کا احمدی نژاد۔ ان میں سے کون ہے جو ان عالمی سازش کاروں کے چہیتے غلاموں کے درجے پر نہیں رہا۔ ان میں سے کون ہے، جس کو یہ طاقتیں براہ راست برسر اقتدار نہیں لائیں۔ پھر ان کے ساتھ سلوک کیا ہوا۔ پھر سے وہی پرانی مثال، ٹشو پیپر جب استعمال ہوجاتا ہے تو اس کی جگہ ڈسٹ بن میں ہی بچتی ہے۔ ان غلاموں میں سے بیش تر کو عبرت کا نشان بنادیا گیا اور وہ تو وہ، ان کے پورے خاندان کا بھی نام و نشان مٹادیا گیا۔
اس وقت ترکی کو بڑھاوا دیا جارہا ہے اور اس کو مسلم دنیا کے ایک قائد کی حیثیت سے ابھارا جارہا ہے۔ ترکوں میں ایک مرتبہ پھر یہ تاثر ابھارا جارہا ہے کہ مسلم خلافت کی ذمے داری وہی بھر پور طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔ اس ترکی خلافت میں حجاز ترکی ہی کے زیر انتظام تھا۔ اب اگر دوبارہ سے سعودی عرب کے حصے بخرے کردیے جائیں اور اس میں سے حجاز دوبارہ سے ترک حکومت کے زیر انتظام آجائے یا پھر دوسری صورت میں حجاز کو ایک خود مختار حیثیت دے دی جائے اور باقی ماندہ سعودی عرب کو متحدہ عرب امارات کے طور پر مختلف امرا میں بانٹ دیا جائے تو اس میں اچنبھے کی کیا بات ہے۔ اس طرح سے آل سعود کا ان عالمی سازش کاروں کے مغربی بینکوں میں جمع شدہ سرمایہ ایک جھٹکے میں ان کا ہوگا اور اس کے لیے مزید کسی محنت کی ضرور ت بھی نہیں ہوگی‘۔
سعودی عرب اس وقت نشانہ کیوں۔ اس پر گفتگو جاری ہے۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔ (جاری ہے)