حسین حقانی کی اعترافی تحریر اور ریمنڈ ڈیوس

261

دل تو نہیں چاہتا کہ سری لنکا اور امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی جیسے شخص کے بیانات اور تحریروں پر تبصرہ کروں۔ حسین حقانی جیسے خود غرض لوگ ہر دور میں ہی پائے جاتے ہیں جو اپنی بقاء کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ یہ ایک محدود وقت کے لیے کسی کے بھی بن سکتے ہیں اور کسی کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ حسین حقانی کا تعلق کراچی سے ہے۔ انہوں نے جامعہ کراچی سے انٹرنیشنل ریلیشنز میں ایم اے کیا زمانہ طالب علمی میں جمعیت سے وابستہ رہے، یہ ان کی سیاست کی نرسری بھی تھی، صحافت میں آئے تو روزنامہ جسارت سے بھی وابستہ رہے۔ پھر انہیں نواز شریف سے پیار ہوگیا۔ اس محبت کے طفیل انہیں 1999 میں سری لنکا میں پاکستان کی سفارت ملی۔ وہ پیپلز پارٹی کے قریب بھی رہے۔ 1992 تا 1998 بے نظیر بھٹو کے ترجمان بھی رہے۔ بعدازاں آصف زرداری کی حکومت میں وہ 2008 امریکا کے سفیر بن گئے۔ یہ وہی حسین حقانی ہے جو زمانہ طالب علمی میں امریکا کے خلاف احتجاجی تحریک کا بھی حصہ بنتے رہے۔ مگر اب پیپلز پارٹی کے رہنماء ان سے لاتعلقی ظاہر کرنے میں لگے ہیں۔ ملک کے سیکورٹی کے ادارے ان سے ناراض ہیں مگر وہ ان دنوں بھی مست ہیں کہ ان کا دوست امریکا ہے۔
لیکن پیپلز پارٹی کی لاتعلقی اس وقت سے منظر عام پر آرہی ہے جب سے حسین حقانی نے دعویٰ کیا ہے کہ اوباما انتظامیہ سے ان کے ’’رابطوں‘‘ کی وجہ سے ہی امریکا القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن کو نشانہ بنانے اور ہلاک کرنے میں کامیاب ہوا۔
یہ اعتراف حسین حقانی اپنے واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں کرتے ہیں۔ انہیں یہ اقرار یا اعتراف کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، یہ بات تاحال جواب طلب ہے۔ حسین حقانی نے اپنی تحریر میں 2016 کے امریکی انتخابات سے قبل اور بعد میں ڈونلڈ ٹرمپ کے روس سے تعلقات کا دفاع کیا اور کہا کہ انہوں نے بھی 2008 کے انتخابات میں سابق صدر اوباما کی صدارتی مہم کے ارکان کے ساتھ اسی طرح کے تعلقات استوار کیے تھے۔ انہوں نے واضح طور پر لکھا کہ ’’ان روابط کی بناء پر ان کی بحیثیت سفیر ساڑھے 3 سالہ تعیناتی کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اور امریکا کے درمیان قریبی تعاون ہوا اور آخرکار امریکا کو پاکستان کی انٹیلی جنس سروس یا فوج پر انحصار کیے بغیر اسامہ بن لادن کے خاتمے میں مدد ملی‘‘۔ حسین حقانی کا کہنا تھا کہ اوباما کی صدارتی مہم کے دوران بننے والے دوستوں نے تین سال بعد ان سے پاکستان میں امریکی اسپیشل آپریشنز اور انٹیلی جنس اہل کاروں کو تعینات کرنے کے حوالے سے مدد مانگی۔ حسین حقانی کے مطابق، ’میں نے یہ درخواست براہ راست پاکستان کی سیاسی قیادت کے سامنے رکھی، جسے منظور کرلیا گیا، اگرچہ امریکا نے آپریشن کے حوالے سے ہمیں باقاعدہ طور پر پلان سے باہر رکھا، تاہم مقامی طور پر تعینات امریکیوں کی ناکامی کے بعد سابق صدر اوباما نے پاکستان کو اطلاع دیے بغیر نیوی سیل ٹیم 6 بھیجنے کا فیصلہ کیا‘‘۔ اپنے اس مضمون میں حسین حقانی نے نومبر 2011 کو یاد کیا، جب انہیں بحیثیت سفیر مستعفی ہونے کے لیے مجبور کیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی اقرار کیا کہ ’’سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کو مجھ سے ایک پرابلم یہ تھی کہ میں نے بڑی تعداد میں سی آئی اے اہل کاروں کی پاکستان میں موجودگی کے لیے سہولت فراہم کی، جنہوں نے پاکستانی فوج کے علم میں لائے بغیر اسامہ بن لادن کا پتا چلایا، ساتھ ہی ان کا کہنا بھی تھا کہ ’’اگرچہ میں نے یہ سب کچھ پاکستان کی منتخب سویلین قیادت کے علم میں لاکر کیا تھا‘‘۔ حسین حقانی کا امریکا سے اس تعاون پر یہ کہنا تھا کہ امریکی عہدیداران سے ان کے تعلقات کا مقصد دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں فتح کو یقینی بنانا تھا۔
حسین حقانی نے لکھا، ’’بدقسمتی سے امریکا افغانستان میں فتح حاصل نہیں کرپایا اور اسلامی عسکریت پسندوں کے حوالے سے پاکستانی حکومت کا رویہ بھی مستقل بنیادوں پر تبدیل نہ ہوسکا، تاہم جب تک میں امریکا میں سفیر میں رہا، دونوں ملکوں نے اپنے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے مل کر کام کیا، جو سفارت کاری کا بنیادی جوہر ہے‘‘۔
حسین حقانی کی یہ تحریر ان دنوں ملک کے مقتدر حلقوں کے ساتھ پیپلز پارٹی میں زیر بحث ہے۔ پیپلز پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر کا امریکیوں کو جاری کیے گئے ویزوں کے حوالے سے کہنا ہے کہ ویزے کے معاملات ماضی میں بھی اٹھائے جاتے رہے ہیں، ’’امریکیوں کو ویزہ جاری کرنے کے سلسلے میں تمام قواعد اور طریقہ کار کو مدنظر رکھا گیا اور حکومت کی کسی بھی برانچ کی جانب سے کوئی شکایت نہیں کی گئی تھی‘‘۔ فرحت اللہ بابر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حسین حقانی اب آزادانہ کام کرتے ہیں اور وہ پیپلز پارٹی حکومت کے ترجمان نہیں تھے۔
حسین حقانی کی امریکی اخبار میں شائع ہونے والی یہ تحریر دراصل ملک کے راز کو افشاء کرنے، حسین حقانی کی طرف سے اپنے کردار کو اجاگر کرنے کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے۔ وہ کردار جس کی وجہ سے امریکا کو اپنے دشمن اول اسامہ بن لادن تک پہنچنے اور ہلاک کرنے میں کامیابی ہوئی لیکن پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی۔ حسین حقانی کا تو کچھ بھی نہیں گیا، ممکن ہے وہ دوبارہ امریکیوں کے اشارے پر کسی حکومت کے سفیر بن جائیں۔ لیکن اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کا جو ثبوت امریکا کے ہاتھ لگا وہ ایک ایسے داغ کی طرح ہے جسے خصوصاً اسلام دشمن قوتین کسی بھی وقت بطور طعنہ استعمال کرسکتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حسین حقانی نے امریکیوں سے دوستی نبھاکر کس بات کا ثبوت دیا ہے؟ یہ سوال حسین حقانی کا اس وقت تک تعاقب کرتا رہے گا جب تک قوم اس کا اطمینان بخش جواب نہیں مل جائے گا۔ حسین حقانی کو اسی زندگی میں اس سوال کا بھی جواب دینا پڑے گا کہ وہ پاکستان سے زیادہ امریکا کے مخلص کیوں بنے۔ کیا بہتر نہیں ہوتا کہ وہ تمام اطلاعات پاکستان کے حساس ادارے کو خود ہی فراہم کردیتے۔ بہرحال مجھے حسین حقانی کی تحریر سے کوئی اور جواب ملے یا نہ ملے یہ تو مل ہی گیا کہ امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کیوں اور کس کے تعاون سے پاکستان پہنچا تھا۔ اور پھر اس نے 27جنوری 2011 کو لاہور میں دو نوجوانوں کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔