احمداعوان
اب تو لوگ کہتے ہیں ہمیں ہمارے پیارے زندہ نہیں توان کی لاشیں ہی دے دو تاکہ ہمیں صبر آسکے۔ مجھ سے فون پر آمنہ مسعود صاحبہ مخاطب تھیں جو پاکستان میں جبری گمشدگی کے مسئلے کو اجاگر کرنے اور اس مسئلے پر آواز بلند کرنے والی باہمت خاتون ہیں۔ یہ لاپتا افراد کی بازیابی اور ان کے اہل خانہ کی کونسلنگ کرنے اور انہیں معاشرے کا، کارآمد فرد بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ یہ ایک تعلیم یافتہ گھریلو خاتون اور بہت اچھی مصورہ ہیں۔ آج سے 12برس قبل یہ بچوں اور بے پناہ محبت کرنے والے شوہر مسعود جنجوعہ کے ساتھ پرامن اور محفوظ تصور کیے جانے والے اسلام آباد کے ساتھ واقع راولپنڈی میں رہتی تھیں۔ ایک روز، ان کے شوہر مسعود جنجوعہ گھر سے گئے اور آج تک لوٹ کر نہیں آئے۔ پختون روایات کی امین، محترمہ آمنہ مسعود جنجوعہ نے گھر سے پہلی مرتبہ قدم اپنے شوہر کو تلاش کرنے کے لیے نکالا مگر ان کو جلد احساس ہوا کہ یہاں تو کئی آمنہ اپنے مسعود کو ڈھونڈنے کے لیے دربدر کی خاک چھان رہی ہیں۔ اسی روز سے وہ ایسے تمام لاچار، محکوم، مظلوم، بے سہارا اور بے یارومددگار لوگوں کا ارض وطن پر واحد سہارا بن گئیں۔ اب ان کی منزل صرف مسعود جنجوعہ کا گھر واپس آجانا نہیں ہے۔ آج وہ ہر لاپتا فرد کی والدہ، بہن، بیٹی اور بیوی کو اپنے اپنے مسعود سے ملوانے کی تحریک کی سربراہ ہیں۔
آمنہ مسعود صاحبہ بتارہی تھیں 25اکتوبر کو ڈیڑھ سال بعد 40 لاپتا افراد کا مقدمہ عدالت عظمیٰ کے بینچ نمبر تین میں لگایا گیا۔ یہ مقدمہ جسٹس اعجاز افضل کے سامنے پیش کیا جانا تھا۔ مگر اس روز پیش ہونے والے مقدمات کی فہرست میں لاپتا افراد کا نمبر آخری تھا، اس لیے عدالت کا وقت ختم ہوگیا اور مقدمے کی سماعت کا نمبر ہی نہیں آیا۔ آج سے ڈیڑھ سال پہلے لگنے والی پیشی پر معزز عدالت نے حکم نامہ جاری کیا تھا کہ بیس سے پچیس مقدمات مختلف عدالتوں میں سنے جائیں گے۔ اور لاپتا افراد کے مقدمے کی سماعت بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہے گی۔ اس موقعے پر عدالت بڑی برہم بھی ہوئی تھی کہ اتنی اہمیت کے حامل مقدمات کو 2سال کی تاخیر سے کیوں سنا جارہا ہے؟ اس برہمی کا اتنا اثر ہوا کہ پورے ڈیڑھ سال بعد مقدمے کی سماعت کی باری آئی۔ 25اکتوبر کو عدالت میں سنوائی کی امید لیے پاکستان کے مختلف شہروں سے گمشدہ افراد کے لواحقین اسلام آباد پہنچے۔ مگر عدالت میں سماعت کا نمبر نہیں آیا اور وقت ختم ہوگیا۔ 25اکتوبر کو سماعت کے لیے رکھے گئے مقدمات میں 2005 سے لاپتا مسعود جنجوعہ، لاہور کے انجینئر فیصل فراز جو 2005 سے لاپتا ہیں۔ ملتان کے سعید احمد جو 2009 سے لاپتا ہے۔ جس کے بارے میں 3رہا شدہ افراد بیان حلفی میں یہ بتاچکے ہیں کہ سعید احمد کہاں اور کس کی تحویل میں ہے۔ مگر لاپتا افراد کا کمیشن اس کے باوجود کچھ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ لاپتا افراد کے معاملے میں کسی فرد کا یہ گواہی دینا کہ اس نے فلاں لاپتا فرد کو کہاں دیکھا تھا یہ بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ کیوں کہ لاپتا افراد میں سے جو اللہ پاک کے حکم سے رہا ہوکر واپس اپنے گھروں کو آتے ہیں وہ اس قدر ڈرے ہوتے ہیں کہ وہ کسی سے کوئی بات نہیں کرتے۔ گواہی دینا تو دور کی بات ہے۔ ایسے افراد کے اہل خانہ اسی پر ربّ کا شکر کرتے نہیں تھکتے، کہ ان کو اپنے پیارے کی لاش نہیں ملی بلکہ زندہ مل گیا ہے۔ ایسے میں لوگ کسی دوسرے کی مدد کرنے کا خطرہ مول نہیں لیتے۔ مگر اس کے باوجود اگر چند باہمت لوگ سامنے آجائیں جو گواہی دیں کہ انہوں نے فلاں لاپتا شخص کو فلاں جگہ پر دیکھا ہے تو اس پر لاپتا افراد کا کمیشن کچھ نہیں کر پاتا جو ایک الگ داستان غم ہے۔ 25 اکتوبر کو سنے جانے والے مقدمات میں چکوال سے 2010ء سے لاپتا دو بھائی عمر بخت اور عمر حیات کا مقدمہ بھی تھا۔ 4سال قبل اس مقدمے کے حوالے سے حتمی ثبوت مل چکے ہیں مگر ابھی تک بازیابی عمل میں نہیں لائی جاسکی۔ 2009 ء میں پشاور کی ایک مسجد کے خطیب خیرالرحمان کو تمام اہلخانہ کے ساتھ اٹھایا گیا تھا بال بچے تو ایک ہفتے میں واپس آگئے مگر خیرالرحمان آج تک لاپتا ہے اس کا بوڑھا باپ اس کی یاد میں رورو کر آنکھوں سے معذور ہوچکا ہے۔ لاہور کے مدثر اقبال کی والدہ 2014 ء تک بیٹے کی رہائی کے لیے لاہور، اسلام آباد کے درمیان سفر کرتی رہیں لیکن اب فالج کی مریضہ بن جانے کے سبب چارپائی پر ہیں، کبیروالہ کے عبدالرحمان، بشیر احمد عثمانی اور عبدالجبار شاکر کے نام بھی اس فہرست میں تھے جن کا مقدمہ سنا جاتا۔
محترمہ آمنہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ اکثر لاپتا افراد کو جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کیا جارہا ہے۔ کراچی کے 2 انجینئرز بھائی ستمبر 2017 کو مختلف تاریخوں میں اٹھائے گئے، ایک بھائی سکندر جمال کی حال ہی میں پولیس مقابلے کے بعد لاش گھر والوں کو دیدی گئی، جب کہ دوسرا بھائی حسن جمال تاحال لاپتا ہے۔ انہوں نے سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی اور سینیٹر فرحت اللہ بابر کی لاپتا افراد کے لیے کی جانے والی کوششوں کو امید کی کرن قرار دیا۔ آمنہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ حالات اتنے خراب ہیں کہ میڈیا میں بھی لاپتا افراد کے حوالے سے مکمل سچ نہیں آسکتا۔ ایک مرتبہ ایک لاپتا فرد کی بیوی نے کسی ذمے دار سے کہا کہ مجھے میرے شوہر تک رسائی دی جائے ورنہ میں میڈیا میں چلی جاؤں گی، متعلقہ ذمے دار نے اس خاتون سے کہا ’’اگر آپ نے آمنہ جنجوعہ بننے کی کوشش کی، تو اس کا حال دیکھ لیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ لاپتا افراد کے اہلخانہ اور لواحقین عدالتوں اور کمیشن میں بیان حلفی جمع کرواتے ہیں کہ اگر ہمارے لوگوں نے کوئی جرم کیا ہے توان کو سامنے لاکر پھانسی دے د یں ہم کوئی اعتراض نہیں کریں گے۔ مگر لاپتا نہ رکھیں۔ انہوں نے ایسے والدین کا ذکر بھی کیا جو متعلقہ جگہوں پر جاکر اپنے لاپتا ہونے والے افراد کی لاشیں مانگتے ہیں کہ اگر زندہ نہیں دے سکتے تو مردہ حالت میں دے دو تاکہ ہم ان کو دفنا کر ان کی قبر تو دیکھتے رہیں۔
آمنہ صاحبہ کے فون بند کرنے کے بعد میں دیر تک سوچتا رہا کہ یہ انسانی تاریخ کا بدترین المیہ ہے کہ جس دور کو لوگ عظیم سمجھتے ہیں جہاں لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ آج کا انسان ماضی کے تمام انسانوں کے مقابلے میں آزاد ترین انسان ہے وہاں جبری گمشدگی بھی اپنا وجود رکھتی ہے۔ چند روز قبل سینیٹ میں فرحت اللہ بابر صاحب اور چیئرمین سینیٹ نے لاپتا افراد کے مسئلہ پر کہا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کہیں اور بنتی ہے۔ پہلے صرف پاکستانی اٹھا کر غائب کردیے جاتے تھے اب غیر ملکی بھی غائب کیے جارہے ہیں اگر ملک میں ایسا ہی چلتا رہا تو، عالمی برادری ہماری (پاکستان) کیا عزت کرے گی؟ جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں لکھا کہ اس نے پاکستانی، امریکا کو بیچے ہیں، اور جنرل پرویز مشرف پاکستان سے باعزت باہر چلا گیا۔ ہم بین الاقوامی سطح پر اپنے لیے مشکلات خود تیار کر رہے ہیں۔ آج پورے ملک میں لاکھوں لوگوں کو اعلیٰ عدلیہ کے بارے میں یہ خوش گمانی ہوگی کہ وہ ہرمعاملے میں بااختیار ہیں، مگر عدلیہ کا اختیار لاپتا افراد کے مقدمات میں کتناچلتا ہے؟ یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ پاکستان کی فکر کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ جزا اور سزا کا قانون جب تک اپنی روح کے مطابق نافذ نہیں ہوگا اس وقت تک نہ ملک ترقی کرسکتا ہے نہ معیشت پروان چڑھے گی اور نہ ہی امن قائم ہوگا۔ خدا کے بنائے ہوئے قانون کو نافذ نہ کرنے والے لوگ، اپنے بنائے ہوئے قانون کی تو عزت کریں۔ قومیں صرف کرپشن سے تباہ نہیں ہوتیں، نہ اخلاقی پستی سے تباہ ہوتی ہیں، قومیں اس وقت تباہ ہوجاتی ہیں، جب وہاں سے انصاف بھی ختم ہوجائے۔
ہر فرد قیامت کے روز اللہ پاک کو محب وطن ہونے کے ناتے جوابدہ ہوگا نہ کسی ادارے کا فرد ہونے کے ناتے۔ نہ دفاع وطن کے تقاضوں کے نام پرکسی ناانصافی پر معافی طلب کرسکے گا۔ روز محشر ہر فرد کو اپنے کیے کا جواب اپنی ذاتی حیثیت کے مطابق دینا ہوگا۔ اس لیے اصل طاقت اور اقتدار رکھنے والے ’’محب وطن‘‘ بھائیوں کو چاہیے کہ وہ غریب، مظلوم اور کمزور لاپتا افراد کے اہل خانہ کی بددعاؤں سے بچیں۔ وہ سادہ لوگ جو مذہب کے نام پر استعمال ہوئے، ان بیچاروں کا کیا قصور تھا؟ کل کے غازی آج غدار ٹھیرے۔ المیہ یہ نہیں لوگ مارے گئے المیہ یہ ہے کہ تاریک راہوں میں مارے گئے۔ اور ان کے پیچھے لواحقین دربدر کی ٹھوکریں کھاتے تقدیر میں لکھی آزمائشیں کاٹ رہے ہیں۔ المیے سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آج بھی وہ لوگ جن کو خطابت آتی ہے جو لاکھوں کا مجمع جمع کرلیتے ہیں، جو لشکر تیار کر سکتے ہیں۔ وہ اپنی آنکھوں سے افغانستان اور کشمیر میں اپنے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک دیکھ کر بھی توبہ کرنے پر راضی نہیں ہیں۔ میں جب کبھی دارالحکومت کی اداس شام کا خوب صورت چہرہ دیکھتا ہوں تب وہ لاکھوں شہداء، قیدی اور غازی جو عالمی، علاقائی، گروہی، مسلکی، اور قومی مفاد کو سمجھنے سے بالکل قاصر رہے اور ان کے بعد ان کے دربدر، رلتے بچے دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ کیا یہ سب تاریک راہوں میں مارے گئے۔۔۔؟؟