اقبال :کمالِ فن کی جھلک

744

عبدالخالق بٹ

بات برصغیر میں فارسی و اردو شعری روایت کی ہویا مسلم بیداری کی، علامہ اقبال ؒ ہردوزمرہ جات میں ممتاز حیثیت کے حامل ہیں ،پھر خصوصیت کے ساتھ اقبالؒ کے ضمن میں یہ دونوں عملاً ایک ہی زمرہ بن جاتے ہیں ،وہ اس طرح کہ علامہ محمد اقبالؒ نے بیسویں صدی کے آغازپر زوال پذیر مسلمانان برصغیر میں بیداری پیدا کرنے کے لیے شاعری کو وسیلہ بنایا اور اس کے لیے اولاً فقط اردواور ثانیاً اردووفارسی دونوں سے واسطے کا کام لیا۔ پھر اقبال نے خود اپنے مقصد شعری کو ان الفاظ میں بیان کیا :
نغمہ کجاومن کجا شعروسخن بہانہ است
سوئے قطار می کشم ناقہ بے زمام را
(کہاں نغمہ اور کہاں میں ،یہ شعروشاعری تو ناقہ بے مہار ( امتِ گم کردہ راہ ) کوقطار میں واپس لانے کابہانہ ہے )
اقبال ؒ کو اپنے اس مقصد شعری کے اظہار سے پہلے خود کو ’’اہل زبان‘‘ کے درمیان شاعر تسلیم کروانے کے لیے بھی شدیدبلکہ بدترین تنقید کاسامناکرناپڑا ،اقبال ؒ کا کلام جب ہندستان کے مختلف اخباروں اور رسالوں میں شائع ہونا شروع ہوتو ’’اہل زبان‘‘کی جانب سے اقبال کی زبان وبیان پر شدید تنقید کی گئی، اس ضمن میں لکھنؤ کا اخبار اودھ پنچ پیش پیش تھا ، تاہم اقبال اور اقبال کے دفاع میں بعض دوسرے اہل علم کی جانب سے ان اعتراضات کامدّلل جواب دیا گیا جو ادبی تاریخ کا حصہ اور ادب کے طالب علم کے لیے لائق مطالعہ ہے ۔
اردو علامہ کی مادری زبان نہیں تھی، کشمیری النسل اقبال نے ٹھیٹھ پنجابی ماحول میں آنکھ کھولی اور اسی ماحول میں زندگی کے ابتدائی مدارج طے کیے ،عربی وفارسی میں مہارت کے باوجودآخرعمرتک اقبالؒ کا لہجہ پنجابی زبان سے متاثررہا ۔تاہم انہوں نے اس زبان میں ایسی مہارت تامہ حاصل کی کہ عربی و فارسی کے سینکڑوں الفاظ نے کلام اقبال کے نتیجے ہی میں اردودان طبقے میں قبول عام حاصل کیا اور ان کے بے شمار مصرعوں اور اشعار کو ضرب المثل کا درجہ حاصل ہوا۔ اس قدرپذیرائی کے باوجود اقبالؒ نے زبان دانی کا کوئی دعویٰ نہیں کیا بلکہ ان کا طرزِعمل خاکسارانہ ہی رہا ۔ع
نہ زبان کو ئی غزل کی، نہ زبان سے باخبر میں
بنیادی طورپراقبال کاپیغام معرفت الٰہی،عشق رسولؐ اور عرفان نفس سے عبارت ہے ، اس پیغام کے بعض نکات ایسے ہیں جنہیں پیغام اقبال میں مکررات کی حیثیت حاصل ہے ،مگر کمال یہ ہے کہ ان نکات کو ہربار ایک نئے رنگ میں باندھا گیاہے ،جس کی وجہ سے یہ کلام ’’تکرارحسین ‘‘ میں ڈھل گیاہے ۔ذیل میں اقبال کے مکررات میں سے فقط ایک نکتہ پیش خدمت ہے ،جس پر میر انیس کا کہاصادق آتا ہیع
’’اِک پھول کامضموں ہوتوسو رنگ سے باندھوں‘‘
اقبال کا دور عالم اسلام کی مغلوبی بالخصوص ہندستان کی محکومی کا دور تھا، مسلمان سیاسی ہی نہیں نفسیاتی طورپر بھی شکست خوردہ تھے، پھرکرداروعمل کی کمزوری اس پر مستزاد تھی،سو برائیوں کی ایک برائی آپس کا نفاق تھا،ہندستان میں مغلوں کی بربادی اور ہندستان سے باہر عثمانی خلافت کی تباہی میں بنیادی کردار اسی باہمی رنجش اوردلوں کے غبار کا تھا۔ ظاہر ہے یہ صورت حا ل کسی طوربھی قرآن کے مطلوب بندۂ مومن کی ترجمان نہیں تھی کیوں کہ قرآن کا مرد مومن دوسرے مومن کے لیے مشفق اور غمخوار ہے جبکہ اس کا غضب اور سختی صرف اسلام کے دفاع کے لیے ہے ،مسلمانوں کے اس وصف کو سورہ فتح کی قدرے طویل آیت کے ایک جزمیں ان الفاظ میں بیان کیاگیاہے:
اشداء علی الکفار رحماء بینھم۔(الفتح:۲۹)
ترجمہ:’’وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں‘‘
اقبالؒ نے قرآن کے اس ایک نکتے کو مختلف زاویوں اور رنگوں میں اس خوبصورتی سے پیش کیا ہے کہ پڑھنے والاان کی طلاقت لسانی اورخیالات کی روانی کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔نظم ’’جواب شکوہ‘‘میں قرون اولیٰ کے مسلمانوں سے عہد حاضرکے مسلما نوں کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ع
تم ہو آپس میں غضب ناک وہ آپس میں رحیم
ایک مصرعے میں ہی اسلاف اور موجودہ مسلمانوں کے طرز عمل کا بنیادی اختلاف بیان کردیا کہ تمہارے اسلاف ایک دوسرے کے لیے سراپا رحمت تھے،جبکہ تمہاری تلوار اپنوں کے لیے ہی پیغام اجل بنی ہوئی ہے ۔
اب زیربحث جز آیت کا خوبصورت منظوم ترجمہ ملاحظہ کریں:
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
یہاں اقبالؒ نے ایک جانب مومن کی شفقت کو کچے ریشم (ابریشم) سے تعبیر کرکے اس کی دوسرے مومن کے لیے انتہائی نرمی کو واضح کیا ہے تو دوسری طرف کفار کے مقابلے میں اس کی غضبناکی کو فولادسے تعبیر کرکے اس کی صلابت کو مجسم کردیا ہے ۔
مذکورہ جزآیت کا ایک اور شاندار منظوم ترجمہ ملاحظہ فرمائیں جس میں مومن کے مہروفا اور غیض وغضب کوبالکل جداتشبیہات میں بیان کیا گیاہے :
جس سے جگرلالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس دہل جائیں وہ طوفان
شعر بالا میں ’’شبنم کی ٹھنڈک اور طوفان کا غضب ‘‘ بطور اوصاف جس کمال مہارت سے برتے گئے ہیں اس نے صورتحا ل کو مُصَورکردیا ہے ،شکوہ الفاظ کے سبب قاری نہ صرف شبنم کی ٹھنڈک محسوس کرتاہے بلکہ وہ دل دہلادینے والے طوفان کابھی بسروچشم دیکھتاہے ۔
چونکہ اقبال کومسلمانوں کی باہمی رنجش کا قبیح و کریہہ مسئلہ درپیش تھا اس لیے اس باب میں اُن کاپیغام یہیں تمام نہیں ہوا بلکہ اس پیغام کو انہوں نے مزید نوبہ نو استعاروں اور تشبیہات کے ساتھ پیش کیا، جیسا کہ اشعار ذیل میں دیکھا جاسکتا ہے ۔اقبالؒ نے بانگ درا کی مشہور نظم’’ طلوع اسلام‘‘ میں مذکورہ جزآیت کے معنی و مفہوم کو کچھ اس رنگ میں اداکیا ہے :
مصافِ زندگی میں سیرت فولاد پیدا کر
شبستان محبت میں حریروپرنیاں ہوجا
گزرجا بن کے سیل تندرو کوہ و بیاباں سے
گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہوجا
یعنی معرکہ زندگی کی کامیابی کاا نحصار کردار وعمل کی پختگی پراور اہل دل کے درمیان ہردلعزیزی کاہنر محبت و مہربانی کی فراوانی میں پوشیدہ ہے،پھر یہ کہ بندۂ مومن کفرکے کوۂ گراں اور باطل کے بیاباں کے لیے تند وتیز سیلاب ثابت ہوتا ہے جو حق کے مقابلے میں کفرکی تدابیر کو خس وخاشاک کی طرح بہا لے جاتا ہے اور جب اس سفر میں اس کا گزر چمنستان محبت سے ہوتا ہے تواس کی تندی و تیزی سبک خرامی میں بدل جاتی ہے ،اوروہ چمن کی شادابی ودلکشی میں اضافہ کرتا ہے ۔
اب ایک اور شعر دیکھیں جس میں شاید کسی تشریح یا وضاحت کی ضرورت نہیں:
اے رہروئے فرزانہ ،رستے میں اگر تیرے
گلشن ہے تو شبنم ہو ،صحرا ہے تو دریا ہو
اس جوئے رواں کی ایک اور جھلک ساقی نامہ میں بھی دیکھی جاسکتی ہے ،جہاں اقبال اس منظر نگاری میں اپنے کمال فن کو اس بھرپورطریقے سے بروئے کار لائے ہیں کہ پڑھنے والاخود بھی آب رواں کے ساتھ بہنے لگتا ہے ،اورگاہے اس کی سبک خرامی سے لطف اندوزہوتا اور گاہے اس کے جوش غضب کا نظارہ کرتاہے:
وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی
اٹکتی، لچکتی، سرکتی ہوئی
اچھلتی، پھسلتی، سنبھلتی ہوئی
بڑے پیچ کھاکر نکلتی ہوئی
رکے جب تو سل چیر دیتی ہے یہ
پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے
یہاں اس تفصیل کی ضرورت نہیں کہ جوئے کوہستان کی یہ سرخوشی وسرمستی جس میں اس کا اٹکنا ،لچکنا،سرکنا،اچھلنا ،پھسلنا ،سنبھلنااور پیچ کھا کھاکرنکلنا شامل ہے، مومن کے جذبہ رحمت سے عبارت ہے ،اور اس کے عزائم کی راہ میں آنے والا پہاڑ حقیقتاً باطل کا ترجمان ہے جو اپنی قوت و سطوت کے باوجود ایک سچے مومن کی راہ نہیں روک پاتابلکہ مومن اس کاسینہ چیر کر آگے بڑھ جاتا ہے ۔
اب تک پیش کیے جانے والے اشعار میں اقبال نے مومن کے جذبہ ترحم کو ابریشم کی طرح نرم ،جگر لالہ کے لیے شبنم ،حریروپرنیاں اورجوئے نغمہ خواں سے تعبیر کیا ہے اور رزم حق وباطل میں مومن کے جاہ و جلال کوکہیں فولا د ، کہیں طوفان اور کہیں سیل تند روکہہ کر پکارا ہے ،مگر اب اسی ایک بات کو مزید نئی تشبیہات کے ساتھ ملاحظہ کریں :
اگر ہو جنگ تو شیرانِ غاب سے بڑھ کر
اگر ہو صلاح تو رعنا غزالِ تتاری
سچی بات ہے شعر پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ امکانات کی دنیا لامحدود ہے ،خوبصورت اور لاجواب تشبیہات کے حامل اس شعر میں اقبال نے ’’اشداء علی الکفار رحماء بینھم‘‘کے تناظر میں مرد مومن کو حالت جنگ میں مثل شیر قرار دیاہے اورشیر بھی وہ جسے اُس کی کچھار(غاب)میں للکارا جائے تو اس کا غضب دوچند ہوجائے ۔ اسی طرح حالت امن میں مومن کے طرز عمل کو صرف غزال کہہ کر ہی نہیں رہ گئے جو دشت و بیاباں میں جہاں چاہے کلاچیں بھرتا پھرے بلکہ اسے غزال تتاری (وہ ہرن جس کے نافے سے مشک حاصل ہوتی ہے)کہہ کراس کی اہمیت کو اوربڑھا دیاکہ مومن بہرحال دوسروں کونفع پہنچانے والاہوتا ہے ۔
زیربحث موضوع کے حوالے سے ایک اور مثال پیش خدمت ہے تاہم یہاں اقبال نے اس موضوع کو قدرے بدلے ہوئے انداز میں اداکیا ہے، مفہوم ایک ہی ہے لیکن الفاظ اورزاویہ مختلف ہے ، یہاں مومن کی صاف دلی کا بیان ہے کہ معرکہ زندگی ہو یا یاراں طرح دار کی محفل، کرداروعمل کی پاکیزگی ہردوجگہ برقراررہتی ہے :
نرم دم گفتگو گرم دَم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاک باز
اقبال کے مکررات کے ضمن میں یہ فقط ایک نکتے (اشداء علی الکفار رحماء بینھم)کی مختلف صورتیں ہیں ،ایک ہی بات کو مختلف زاویوں ، جداگانہ تشبیہوں اورنوبہ نو استعاروں پرمشتمل اشعارکی صورت میں پڑھتے چلے جائیں کہیں بھی تکرارکااحساس نہیں ہوتا،بلکہ ہربار پیغام کی تازگی وتوانائی طمانیت کا باعث بنتی ہے ،اور بے اختیار میر انیس کا شعر نوک زبان آتا ہے ع
گلدستۂ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
اِک پھول کا مضمون ہوتوسورنگ سے باندھوں