مسئلہ پیرا شوٹرز ہیں

232
 احمد اعوان

جو کچھ ملک میں ہورہا ہے وہ اتنا سادہ نہیں کہ آسانی سے سمجھ میں آجائے۔ بات صرف نوازشریف کی کرپشن کی نہیں۔ آصف علی زرداری کو اقتدار کا خواب دکھانے کی ہے۔ بات عمران کو لارے میں لگا رکھنے کی بھی نہیں۔ بات ہے اپنی حاکمیت کو برقرار رکھنے کی۔ ملک میں گامے تیلی کی حکومت چل سکتی ہے۔ بلے نائی کی چل سکتی ہے۔ کیٹلے موچی کی حکومت چل سکتی ہے مگر اس کی حکومت نہیں چل سکتی جو اپنی مرضی اپنی پسند سے حکومت چلانا چاہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ جب جنرل پرویز مشرف کا شو ختم ہوا اس کے بعد آصف زرداری کے سہانے دور کا آغاز ہوگیا۔ 5 سال مکمل کیے اور راوی چین ہی چین، سکھ ہی سکھ لکھتا رہا۔ یا یوں کہہ لیں راوری سے لکھوایا جاتا رہا۔ بعض ناقدین کا خیال ہے اور خود یوسف رضا گیلانی بھی فرماتے ہیں کہ اگر لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا کو مدت ملازمت میں توسیع مل جاتی تو گیلانی شاید نہ جاتے۔ ابھی کل ہی جاوید ہاشمی صاحب کسی ٹی وی پروگرام میں فرما رہے تھے کہ ملک کی تاریخ کے تمام بڑے سیاسی لیڈر ایک ہی فیکٹری کی پیداوار ہیں اور جو ان کو فیکٹری سے پیدا کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو ان کو لیڈر بنایا۔ اس موقع پر اینکر پرسن نے کہا کہ یہ کہاں ہوتا ہے کہ فیکٹری کا مال فیکٹری کے مالک کے سامنے کھڑا ہوجائے۔ جاوید ہاشمی نے کہا یہی تو مسئلہ ہے کہ اسی لیے تو فیکٹری والے ہر دو سال بعد نیا مال مارکیٹ میں ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پرانا مال زہر ہے اس کے قریب بھی مت جانا۔ یہ بین الاقوامی اصول ہے کہ وہ ایجنٹ زیادہ برا لگتا ہے جو توبہ کرے اور صحیح راہ پر چلنا شروع کردے۔
جنرل پرویز ملک سے رخصت ہوا اس کے بعد آصف زرداری کے 5 سال میں کرپشن کی کالی ماتا نے جتنے ڈالروں کی بلی لینی تھی وہ لیتی رہی۔ آصف زرداری وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ سے زیادہ وزارت خزانہ کی دیکھ بھال کرتے رہے لہٰذا سب ’’موجاں ہی موجاں‘‘ چلتا رہا۔ جن کے مزے پچھلے 9 سال سے لگے تھے ان کو 5 سال اور مل گئے۔ اندھے کو کیا چاہیے؟ دو آنکھیں وہ مل گئیں۔ آصف صاحب ٹرانسفر پوسٹنگ پکڑتے رہے اور باقی سارا ملک سکون آرام شانتی سے چلتا رہا۔ تین سال کی مدت ملازمت میں توسیع بھی دے دی گئی۔ آصف صاحب اور مزید 5 سال ملتے تو وہ مزید 6 سال توسیع دینے میں 1 منٹ کی بھی دیر نہ کرتے۔ آصف زرداری کے دور حکومت نے ملک کو بہت دکھ دیے ہیں۔ میں جان بوجھ کر آصف زرداری کا دور حکومت لکھ رہا ہوں، پیپلزپارٹی کا دور حکومت نہیں۔ کیوں کہ پیپلزپارٹی میں بے شمار مخلص، صاف، ہمدرد اور غریب لوگ موجود ہیں۔ اس دور حکومت میں کراچی میں روز لوگ مرتے تھے۔ حرام ہے جو کسی کو جوش آیا ہو۔ یا کسی نے مارے شرم کے بیلٹ، ٹوپی اتار پھینکی ہوکہ میں نوکری کروں اور شہر میں لوگ مارے جاتے رہیں یہ کیسے گوارا کروں؟ مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ مان لیا سول حکومت گندی تھی چور تھی، اور سول حکومت حکم نہیں دیتی تھی کہ الطاف کو لگام ڈالو، تو پھر اب کراچی کے امن کا سہرا نوازشریف اور چودھری نثار کے سرجانا چاہیے نا؟ کراچی کے امن کا سہرا راحیل شریف صاحب کے سر کس کھاتے میں؟ چلو لے لو راحیل شریف صاحب کو دیتے ہیں۔تو پھر ماضی میں جو بدامنی تھی وہ اشفاق کیانی کی وجہ سے تھی؟ غیب سے آواز آئی ہے نہیں نہیں وہ سول حکومت کی وجہ سے تھی۔
آصف زرداری نے بری حکومت کی اور ان کے دورِ حکومت کا اختتام ہوا اس وقت پیرا شوٹر عمران خان کو سندھ کو ٹارگٹ کرنا چاہیے تھا۔ مگر عمران خان نے پنجاب کا انتخاب کیا۔ پنجاب میں آصف زرداری کے دور میں بھی میاں شہباز شریف کی حکمرانی تھی ایسے میں عمران خان کا پنجاب کو ٹارگٹ کرنا سمجھ سے بالاتر تھا۔ مگر اکثر فرشتوں کے فیصلے عقل سے ماوراء ہی ہوتے ہیں لہٰذا فرشتوں نے عمران کو پنجاب دیا۔ اگر عمران 2013 کے انتخاب سے قبل سندھ کو ہدف بناتے تو سندھ خاص طور پر کراچی سے خاصی کامیابی ملتی مگر جنہوں نے عمران کو جہاز سے دھکا دیا تھا انہیں نہ الطاف سے کوئی شکایت تھی نہ آصف زرداری سے۔ رہی بات نوازشریف کی تو وہ ہر دور میں وزارت خارجہ کی وجہ سے مشکل کا شکار ہوئے ہیں۔ اس وقت نوازشریف وہی کام کررہے ہیں جو کبھی پیپلزپارٹی کرتی تھی۔ مسئلہ صرف سینیٹ کے انتخابات کا ہے۔ ایسی آوازیں سنائی دے رہی ہیں کہ یا تو سینیٹ کے انتخابات نہیں ہوں گے اگر ہوگئے تو وقت پر الیکشن نہیں ہوں گے۔ اگر الیکشن بھی وقت پر ہوگئے تو ن لیگ کو اکثریت نہیں لینے دیں گے اگر ن لیگ نے اکثریت بھی لے لی تو حکومت بننے نہیں دیں گے اگر حکومت بھی بن گئی تو حکومت چلنے نہیں دیں گے۔ ہاں اس کے امکانات روشن ہیں کیوں کہ جہاز فضاء میں 18 ہزار فٹ کی بلندی پر ہے اور کئی پیرا شوٹر دانت نکالے اپنی چڑیوں کو پیرا شوٹ بناکر گودنے کے لیے اشارے کے منتظر ہیں۔ اشارہ ہوا نہیں کہ وہ کودے نہیں۔ اس لیے مسئلہ ہیں تو صرف پیراشوٹر۔