(رنگِ وفا (افسانچہ

235

سائر ہ بانو

لبنیٰ مذاق میں اپنے شوہر سے بولتی تھی کہ مجھے اکیلے رہنے کی عادت آپ نے ڈالی ہے۔ اَب کیوں اُلجھتے ہیں۔ بیمار بھی ہوتی ہوں تو ڈاکٹر سے دوا خود لے کر آتی ہوں۔کہیں بھی جانا ہو، کیسے ہی آؤں جاؤں، کبھی فکر ہوئی آپ کو؟، جوانی بیوہ کی طرح گزر گئی۔ بچہ ہمارا اب 2بچیوں کا باپ بن گیا ہے۔ آپ کو اب قدر آئی ہماری۔ صابر اور شاکر لبنیٰ دھیمی سی مسکراہٹ سے بولیں۔
اسماعیل صاحب ڈاکٹر تھے۔ لبنیٰ ان کے خاندان میں آئی تھیں، اِن کو چڑ سی تھی لبنیٰ کی شکل خصوصاً ان کے سیدھے سادے حلیے سے، شادی کے کچھ عرصے بعد ہی انہوں نے اپنی پسند کی شادی رچالی اور نئی بیگم کے ساتھ ایک علاحدہ گھر میں رہنے لگے تھے۔
4 بچے ہوگئے تو دوسری بیگم نے اپنا رنگ ڈھنگ دکھانا شروع کیا۔ گھر میں جگہ جگہ بکھرے کپڑے، بے ترتیب سامان پڑا رہتا تھا۔ اسماعیل جب لبنیٰ کے گھر آتے تو سلیقہ، صفائی، نفاست دیکھتے، جس کی وجہ سے گھر میں بیٹھنے کو دل کرتا۔ ہر کام وقت پر کیا ہوا نظر آتا۔ ڈاکٹر صاحب بولتے تو کچھ نہیں تھے مگر دل سے قدر آگئی تھی اور لبنیٰ کے اوپر ادب، تہذیب، سلیقے کا جو رنگ وفا چڑھا تھا ، وہ کامیاب رہا۔
کاش ہمارے معاشرے کی آج کی لڑکیاں اس بات سے سبق حاصل کریں کہ آج بھی لاتعداد عورتیں ایسی ہیں۔ خواتین کو جاننا چاہیے کہ خلع یا طلاق سے مسئلے حل نہیں ہوتے، بلکہ مزید بڑھ جاتے ہیں۔ اچھا خاصا خاندان برباد ہوجاتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ کبھی وقت گردش کا شکار ہو جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ جلد آسانی بھی دے دیتا ہے۔ صبر وتحمل کا دامن تھامنے سے کامیابی ہاتھ آتی ہے۔ جلد بازی کے فیصلے رسوائی اور ناکامی کا منہ دکھاتے ہیں۔