امام شافعیؒ کا یہ سفر نامہ ان کے مشہور شاگرد ربیع بن سلیمان نے روایت کیا ہے اور یہاں ابن حجہ کی کتاب ثمرات الاوراق طبع مصر سے ترجمہ کیا گیا ہے۔
امام شافعی نے فرمایا: مکے سے جب میں روانہ ہوا تو میری عمر چودہ برس کی تھی، منہ پر ابھی سبزہ نمودار نہیں ہوا تھا، دو یمنی چادریں میرے جسم پر تھیں۔ ذی طویٰ پہنچا توایک پڑاؤ دکھائی دیا، میں نے صاحب سلامت کی۔ ایک بڑے میاں، میری طرف بڑھے اور لجاجت سے کہنے لگے: ’’’تمہیں خدا کا واسطہ، ہمارے کھانے میں ضرور شریک ہو‘‘۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ کھانا نکل چکا ہے۔ بڑی بے تکلفی سے میں نے دعوت قبول کرلی۔ وہ لوگ پانچوں انگلیوں سے کھاتے تھے۔ میں نے بھی ان کی ریس کی، تاکہ میرے کھانے سے اْنہیں گھن نہ آئے۔ کھانے کے بعد پانی پیا، اور شکر ِخداوندی کے ساتھ اپنے بوڑھے میزبان کا بھی شکریہ ادا کیا۔
اب بڑے میاں نے سوال کیا: تم مکی ہو؟ میں نے جواب دیا: جی ہاں، مکی ہوں۔ کہنے لگا: قریشی ہو؟ میں نے کہا: ہاں، قریشی ہوں۔ پھر خود میں نے پوچھا: چچا! یہ آپ نے کیسے جانا کہ میں مکی اور قریشی ہوں؟ بوڑھے نے جواب دیا: ’’شہری ہونا تو تمہارے لباس سے ہی ظاہر ہے، اور قریشی ہونا تمہارے کھانے سے معلوم ہوگیا۔ جو شخص دوسروں کا کھانا بے تکلفی سے کھا لیتا ہے اور یہ بھی چاہتا ہے کہ لوگ اس کا کھانا بھی دل کھول کے کھائیں، تو یہ خصلت صرف قریش کی ہی ہے‘‘۔
میں نے پوچھا: آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟ بوڑھے نے جواب دیا: رسو ل اللہؐ کا شہر ’یثرب‘ میرا وطن ہے۔ میں نے پوچھا: مدینے میں کتاب اللہ کا عالم اور سنت رسول اللہؐ سے فتویٰ دینے والا مفتی کون ہے؟ بوڑھے نے جواب دیا: بنی اَصبح کا سردار مالک بن انس (امام مالک )۔ میں نے کہا: آہ! اللہ ہی جانتا ہے، امام مالک سے ملنے کا مجھے کتنا شوق ہے! بوڑھے نے جواب دیا: خو ش ہوجائو، اللہ نے تمہارا شوق پورا کردیا۔ اس بھورے اونٹ کو دیکھو، یہ ہمارا سب سے اچھا اونٹ ہے، اسی پر تم سوار ہوگے۔ ہم اب جا ہی رہے ہیں، رستے بھر تمہاری ہر طرح کی خاطر کریں گے۔ کوئی تکلیف ہونے نہ دیں گے اور مدینے میں مالک بن انس کے پاس تمہیں پہنچا دیں گے‘‘۔
جلد اونٹ قطار میں کھڑے کر دیے گئے مجھے اسی بھورے اونٹ پر بٹھایا گیا اور قافلہ چل پڑا۔ میں نے تلاوت شروع کردی، مکہ سے مدینے تک سولہ بار قرآن کریم ختم ہوگیا۔ ایک دن میں ختم کرلیتا اور دوسرا رات میں۔
امام مالک سے ملاقات
آٹھویں دن نمازِ عصر کے بعد مدینے میں ہمارا داخلہ ہوا۔ رسول اللہؐ کی مسجد میں نماز پڑھی، پھر قبر شریف کے قریب حاضر ہوا اور نبیؐ کو سلام کیا۔ یہیں امام مالک دکھائی دیے۔ ایک چادر کی تہہ بند باندھے تھے، دوسر ی چادر اوڑھے تھے اور بلند آواز سے حدیث روایت کر رہے تھے: ’’مجھ سے نافع نے ابن عمرؓ کے واسطے سے اس قبر کے مکین سے روایت کیا‘‘… یہ کہہ کر اْنہوں نے زور سے اپنا ہاتھ پھیلا دیا اور قبر شریف کی طرف اشارہ کیا۔
یہ نظارہ دیکھ کر امام مالک بن انس کی ہیبت مجھ پر چھاگئی اور جہاں جگہ ملی، میں وہیں بیٹھ گیا۔ امام مالک حدیث روایت کرنے لگے۔ میں نے جلدی سے زمین پر پڑا ہوا ایک تنکا اْٹھا لیا۔ مالک جب کوئی حدیث سناتے تو میں اسی تنکے کو اپنے لعابِ دہن سے تر کرکے اپنی ہتھیلی پر لکھ لیتا۔ امام مالک میری حرکت دیکھ رہے تھے مگر مجھے خبر نہ تھی۔ آخر مجلس ختم ہوگئی اور امام مالک دیکھنے لگے کہ سب کی طرح میں بھی اْٹھ جاتا ہوں یا نہیں۔ میں بیٹھا رہا تو امام مالک نے اشارے سے مجھے بلایا۔ میں قریب پہنچا تو کچھ دیر بڑے غور سے مجھے دیکھتے رہے۔ پھر فرمایا: ’’تم حرم کے رہنے والے ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں حرم کا باشندہ ہوں۔ پوچھا: ’’مکی ہو‘‘۔ میں نے کہا: جی ہاں، کہنے لگے: ’’قریشی ہو؟‘‘ میں نے کہا: جی ہاں۔
فرمانے لگے: ’’سب اوصاف پورے ہیں، مگر تم میں ایک بے ادبی ہے‘‘۔ میں نے عرض کیا: آپ نے میری کون سی بے ادبی دیکھی ہے؟ کہنے لگے: ’’میں رسول اللہؐ کے کلمات طیبات سنا رہا تھا اور تم تنکا لیے اپنے ہاتھ پر کھیل رہے تھے!‘‘ میں نے جواب دیا: لکھنے کو کچھ پاس نہیں تھا، اس لیے آپ سے کچھ سنتا تھا، اسے لکھتا جاتا تھا۔ اس پر امام مالک نے میرا ہاتھ کھینچ کر دیکھا اور فرمایا: ہاتھ پر تو کچھ بھی لکھا نہیں ہے! میں نے عرض کیا: ہاتھ پر لعاب باقی نہیں رہتا، لیکن آپ نے جتنی حدیثیں سنائی ہیں، مجھے سب یاد ہو چکی ہیں۔ امام مالک کو تعجب ہوا کہنے لگے: ’’سب نہیں، ایک ہی حدیث سنا دو‘‘۔ میں نے فوراً کہا: ہم سے امام مالک نے، نافع اور ابن عمرؓ کے واسطے سے اس قبر کے مکین سے روایت کیا ہے‘‘۔ اور مالک ہی کی طرح میں نے ہاتھ پھیلا کر قبر شریف کی طرف اشارہ کیا پھر وہ پور ی پچیس حدیثیں سنادیں جو اْنہوں نے اپنے بیٹھنے کے وقت سے مجلس کے خاتمے تک سنائی تھیں۔