محمد اکرم خالد
گزشتہ دنوں لاہور میں وکلا کی جانب سے ہونے والے سانحہ پر مذمت شاید اب کافی بوسیدہ لفظ ہو گیا ہے ہر سانحے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں پر صرف مذمت کے تیر چلا کر ارباب اختیار نے ہمیشہ غریب عوام کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے۔ بے شمار ایسے واقعات ہیں جن پر آج تک انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ گزشتہ روز انصاف کے رکھوالے ہی دہشت گرد بن گئے ڈاکٹروں کی جانب سے مبینہ طور پر اشتعال انگیز ویڈیو اپ لوڈ کرنے کے معاملے پر وکلا نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر دھاوا بول دیا اسپتال کے اندر باہر توڑ پھوڑ کی جس کے نتیجے میں چار بے گناہ مریض ہلاک ایک پولیس کی موبائل نذر آتش اور صوبائی وزیر پنجاب فیاض الحسن چوہان اور میڈیا کے نمائندوں کو بھی بدترین تشد دکا نشانہ بنایا گیا۔ اسپتال کی ایمرجنسی سمیت دیگر شعبوں میں داخل ہوکر مریضوں اور قیمتی ساز وسامان کو نقصان پہنچایا گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کے قومی اثاثے امراض قلب کے ادارے کو قانون کے رکھوالوں کی جانب سے بھر پور منظم انداز میں دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا وکلا کا یہ اقدام ریاست کے خلاف سنگین دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔
وکلا ہوں یا ڈاکٹر یا ہماری پولیس یہ تینوں طبقے قیمتی انسانی زندگیوں کی حفاظت کے طبقے سمجھے جاتے ہیں۔ بد قسمتی سے یہ تینوں شعبے گزشتہ کئی سال سے انسانیت کے دشمن بن گئے ہیں ڈاکٹر جو خدا کے بعد اپنی قابلیت کی بنا پر انسانی زندگی کو بچانے کا اختیار رکھتا ہے بد قسمتی سے تنخواہوں میں اضافے مراعات کی بھاگ دوڑ میں انسانیت کو مرتا چھوڑ کر آئے دن سڑکوں پر احتجاج اور ہڑتالیں کرتے نظر آتے ہیں ان کے اس اقدام سے سیکڑوں مریض اپنی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں مگر ان کی زندگیوں میں کوئی فرق نہیں پڑتا اسی طرح وکالت کا شعبہ جس کی اولین ذمے داری ہے کہ وہ بے گناہ کو انصاف کی فراہمی میں اپنا مضبوط کردار ادا کرے جس سے ملک کے ہر غریب کو انصاف کی بہتر فراہمی پر یقین ہو بد قسمتی سے ماضی میں چلنے والی وکلا تحریک کے بعد وکلا گردی کے بے شمار واقعات نے کالے کوٹ کو دہشت کی علامت بنا دیا ہے جس کی چند سال میں سیکڑوں مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں، انصاف کا نظام چند کالی بھیڑوں نے رشوت کے سبب برباد کر دیا ہے۔ سول عدالتوں میں انصاف ملتا نہیں بلکہ معذرت کے ساتھ انصاف فروخت کیا جاتا ہے جس پر حکمران اور معزز اعلیٰ عدالتیں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ کاہور میں ایک بار پھر سانحہ ماڈل ٹائون کی یاد تازہ کی گئی تو شاید غلط نہ ہوگا سانحہ ماڈل ٹائون میں پولیس گردی کی گئی تھی اور گزشتہ روز لاہور میں امراض قلب کے اسپتال میں وکلا گردی کو انجام دیا گیا ہے جہاں انسانی زندگیوں کو سر عام ہلاک کر دیا گیا اور بہت سے بیمار افراد کی تذلیل کی گئی ان دونوں واقعات میں پولیس کا کردار ہمیشہ کی طرح فالج زدہ رہا ہے جو انسانیت کے خاتمے پر خاموش تماشائی بنا رہا ہے محکمہ پولیس کو اگر ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے تو یقین جانے کے دہشت گردی سمیت جرائم منشیات کی لعنت میں واضح کمی دیکھانے کو مل سکتی ہے مگر افسوس کہ محکمہ پولیس سیاستدانوں کے کالے کرتوں کو انجام دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے جس کی وجہ سے اس میں بہتر اصلاحات کبھی نہیں لائی جاسکتی۔ یقینا گزشتہ روز کی وکلا گردی پر سیکڑوں کالم لکھے جائیں گے، کئی روز تک ٹی وی ٹاک شو پر اس سانحے پر تبصرے پیش کیے جائیں گے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جدوجہد میں مصروف رہے گی معزز ادارے چند لوگوں کے خلاف ایکشن لیں گے مگر کاغذی کاروائی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ سانحہ ماڈل ٹائون سانحہ ساہیوال سانحہ بلدیہ فیکٹری حال ہی میں ہونے والے ٹرین حادثات یا سر عام پولیس کی دہشت گردی کا نشانہ بنے والے نقیب اللہ سمیت سیکڑوں نوجوانوں کو یا وہ معصوم ننھی پریاں جو درندوں کی ہوس کا نشانہ بن کر قتل کر دی گئیں کیا ریاست ان کو انصاف فراہم کر سکی ہے؟ روٹی کپڑا مکان روزگار علاج انصاف جو غریب عوام کا بنیادی حق ہے جس سے ہمیشہ حکمرانوں کی نالائقی کے سبب یہ قوم محروم کی گئی ہے مگر کئی سال سے اس قوم کو ان کی قیمتی زندگیوں سے بھی محروم کیا جارہا ہے کبھی ڈاکٹروں کی ہڑتال کبھی وکلا کی دہشت گردی تو کبھی پولیس کی دہشت گردی جس پر حکمرانوں کی بے حسی اور اداروں کی خاموشی سوالیہ نشانہ بن گئی ہے ہمیں ایک ایکسٹیشن کی غلط سمری پر تو پوری حکومت کھڑی نظر آتی ہے میاں صاحب اور زرداری صاحب کے کرپشن کیس کے دفاع میں پوری اپوزیشن یکجا نظر آتی ہے مگر غریب کے مسائل کے حل اور اس کی قیمتی زندگی کی حفاظت پر سیاستدانوں کا ٹولہ خاموش تماشائی بنا نظر آتا ہے۔ مذمت مذمت کا راگ الاپ کر یہ لوگ غریب کے درد کا حصہ نہیں بنتے بلکہ ان کے زخموں کو مزید سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر کریدتے ہیں۔ ہم کل انگریزوں کے غلام تھے اور آج ہم آزاد پاکستان میں سیاستدانوں کے غلام بن کر رہ گئے ہیں وہ وقت دور نہیں کہ اگر سیاستدانوں نے اپنا قبیلہ درست نہ کیا تو انگریزوں کی غلامی سے نجات کی طرز پر سیاستدانوں سے نجات کی تحریک بھی جنم لے سکتی ہے۔ لہٰذا حکمران طبقہ چاہے وہ حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف ہو اس ملک و قوم کی ترقی وخوشحالی اداروں کے بہتر نظام کی فوری کوشش عمل میں لائیں تاکہ ملک کے قومی ادارے اپنے دائر کار میں اپنے فرائض کو انجام دیں۔ گزشتہ روز ہونے والا سانحہ وکلا کی دہشت گردی پر معزز عدالت عظمیٰ کو ازخود نوٹس لے کر اس معاملے کی غیر جانبدار تحقیقات کرتے ہوئے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ چند کالی بھیڑوں کی وجہ سے انصاف کے نظام پر کوئی اُنگلی نہ اُٹھا سکے۔