جاید الرحمن ترابی
متنازع شہریت بل کیخلاف بھارتی لوک سبھا سراپا احتجاج بنا ہوا ہے جہاں لوک سبھا کے مسلم ارکان کے علاوہ ہندو اور دیگر مذاہب کے ارکان نے بھی مودی سرکار پر بھارت کو توڑنے کے مترادف اقدامات اٹھانے کا الزام عائد کیا امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی نے متذکرہ بل کی بنیاد پر بھارتی وزیر داخلہ اور دیگر بی جے پی رہنمائوں کیخلاف پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کردیا ہے اور امریکی جریدے بلوم برگ نے اپنی حالیہ اشاعت میں بھارت کی اصل صورتحال بے نقاب کردی ہے کہ بھارت پر نظریاتی جنونیوں کی حکومت ہے جس پر تنقید کرنے والوں کی ٹارگٹ کلنگ کی جاتی ہے۔
گزشتہ روز بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں (لوک سبھا) میں متنازع شہریت بل پر شدید ہنگامہ ہوا کانگریسی رہنماء ششی تھرور نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے شہریت ترمیمی بل کی منظوری گاندھی پر قائداعظم محمدعلی جناح کی سوچ کی جیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجوزہ بل بھارتی آئین کے بنیادی اصولوں کیخلاف جاتا ہے۔ اگر یہ بل منظور ہو گیا تو گاندھی پر قائداعظم کے افکار کی جیت ہوگی۔ دوسری جانب کانگریس کے رہنماء راہول گاندھی نے کہا کہ یہ بل بھارتی آئین پر ایک حملہ ہے اور جو کوئی بھی اس کی حمایت کررہا ہے وہ قومی اساس پر حملہ کرنے اور اسے تباہ کرنے کی کوشش کررہا ہے لوک سبھا میں اس متنازع شہریت بل کی منظوری کے بعد بھارت کے مختلف شہروں میں مظاہروں اور ہنگاموں کا سلسلہ جاری ہے اور مظاہرین نے مودی سرکار کیخلاف زبردست نعرے بازی کی۔ بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں آسام‘ تری پورہ اور میگھالا میں مظاہروں کے علاوہ رات کو مشعل بردار جلوس بھی نکالے گئے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق بھارتی طلبہ کی جانب سے بھی متنازع شہریت بل کو مسترد کر دیا گیا ہے اور آل موران طلبہ یونین نے 48 گھنٹے کی ہڑتال کی کال دے دی ہے۔ اسی طرح مظاہروں کے دوران سڑکوں پر گاڑیوں کے ٹائر جلتے نظرآرہے ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ اس بل کے ذریعے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا ہے۔
پاکستان نے کہا کہ ہم لوک سبھا میں متنازع شہریت سے متعلق قانون سازی کی شدید مذمت کرتے ہیں قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی ہے یہ حقیقت ہے کہ ہندو انتہاء پسندوں کی نمائندہ بھارتیا جنتا پارٹی کی مودی سرکار نے مسلمانوں اور دوسری بھارتی اقلیتوں کیخلاف انتہاء پسندانہ پالیسیاں اختیار کرکے اور متشدد سوچ کو فروغ دیکر بھارت کا سیکولر چہرہ داغدار کیا ہے اور اسے ہندو انتہاء پسند ریاست کی جانب دھکیلا ہے۔ بی جے پی کے پہلے دور حکومت میں بابری مسجد گرائی گئی اور اسکی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کا اعلان کیا گیا اور پھر بی جے پی حکومت نے پاکستان کے ساتھ دشمنی بھی انتہاء کو پہنچائی جبکہ بی جے پی کی مودی سرکار نے تو پاکستان کی سلامتی تاراج کرنا اپنے ایجنڈے کا حصہ بنایا جس نے بھارتی لوک سبھا کے انتخابات میں کامیابی بھی پاکستان اور مسلم دشمنی کے جذبات بھڑکا کر حاصل کی تھی مقبوضہ وادی کو مستقل طور پر ہڑپ کرنا مودی سرکار کے ایجنڈے میں سرفہرست تھا جس کے لیے کشمیریوں کا ساتھ دینے سے روکنے کے لیے پاکستان کو عالمی تنہائی سے دوچار کرنے کی سازشیں کی گئیں۔
5اگست کو بھارتی آئین کی دفعات 370 اور 35اے کو آئین سے نکالنے کا ہتھوڑا برسایا اور کشمیریوں کا احتجاج روکنے کے لیے پوری مقبوضہ وادی کو کرفیو میں جکڑ دیا۔ یہ ظالمانہ کرفیو 129دن سے جاری ہے جس کے دوران کشمیری عوام عملاً زندہ درگور ہوئے ہیں جبکہ بیرونی دنیا سے ان کا رابطہ مکمل طور پر منقطع ہے۔ مودی سرکار کی اس درندگی کیخلاف اقوام متحدہ‘ او آئی سی‘ یورپی یونین‘ برطانوی پارلیمنٹ‘ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کے دوسرے عالمی اور علاقائی نمائندہ اداروں اور کم و بیش تمام عالمی قیادتوں کی جانب سے نوٹس لیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور دوسری پابندیاں اٹھانے اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرنے کا تقاضا کیا گیا جبکہ امریکی صدر ٹرمپ اور متعدد دوسری عالمی قیادتوں کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالثی کی پیشکش بھی کی گئی مگر بگڑی ہوئی مودی سرکار کسی عالمی اپیل اور دبائو پر ٹس سے مس نہیں ہوئی اور اس نے مقبوضہ وادی کی ہیئت تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کو بھی عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا جس کے تحت وہاں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے اور ہندو اقلیت کو اکثریت بنا کر غالب کرنے کے لیے قانون سازی کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ مودی سرکار نے لوک سبھا سے شہریت کے قانون میں ترمیم کا بل منظور کراکے مسلمانوں کے لیے بھارتی شہریت کے حصول کے دروازے بند کرنے کی سازش کی ہے اس بل کے ذریعے انتہاء پسند ریاست کا تصور ابھر کر سامنے آئے گا جس سے ہندو انتہاء پسندوں اور ان کی نمائندہ مودی سرکار کے ہاتھوں علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو مستقل خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ اسی تناظر میں اقوام عالم کی جانب سے مودی سرکار کے انتہاء پسندی پر مبنی اقدامات کیخلاف تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے جبکہ بھارت کے اندر سے بھی مودی سرکار کی انتہاء پسندی کیخلاف مضبوط آوازیں اٹھ رہی ہیں۔