بھالو کی نصیحت اور مشرف کے دوست

260

محمد مظفر الحق فاروقی
کالم کا آغاز ایک کہانی سے کرنا چاہوں گا جو بہت سال پہلے بچپن میں پڑھی تھی۔ کہانی یہ تھی یا ہے کہ ایک بار ایک جنگل میں دو دوست جا رہے ہیں تھے اچانک انہوں نے دیکھا کہ دور جھاڑیوں سے ایک ریچھ یا بھالو نکلا اور ان کی طرف بڑھنے لگا۔ خونخوار بھالو کو اپنی طرف بڑھتا ہوا دیکھ کر یہ دونوں دوست پریشان ہوئے کہ جان کیسے بچائی جائے۔ ایک دوست کو درخت پر چڑھنا آتا تھا وہ فوراً قریب کے ایک تناور درخت پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ دوسرے دوست کو درخت پر چڑھنا نہیں آتا تھا۔اس کو جان بچانے کی ایک ترکیب سوجھی۔ اس نے سنا تھا کہ بھالو کسی مردہ جانور یا جاندار کو نہیں کھاتا۔ یہ دوست فوراً زمین پر لیٹ گیا، بھالو کے قریب آنے سے پہلے اس نے اپنی سانس روک لی۔ وہ ایک مرے ہوئے انسان کی طرح بے حس و حرکت زمین پر لیٹ گیا۔ بھالو قریب آیا، بھالو نے اس شخص کو پیر سے لے کر سر تک سونگھا اور یہ سمجھ کر کہ یہ آدمی تو مرا ہوا لگتا ہے واپس چلا گیا۔ جب بھالو کے دور جانے کا اطمینان ہوگیا تو پہلا دوست درخت سے اُترا۔ دوسرا دوست بھی اُٹھ کھڑا ہوگیا۔ پہلے دوست نے دوسرے سے پوچھا بھالو اپنا منہ تمہارے چہرے کے پاس لایا تمہارے کان میں وہ کیا کہہ رہا تھا۔ دوسرے دوست نے کہا، بھالو میرے کان میں یہ بات کہہ کر چلا گیا کہ ’’جو دوست مشکل گھڑی میں ساتھ چھوڑ جائے اس کو کبھی بھی اپنا دوست مت سمجھنا‘‘۔
یہ کہانی اور ریچھ کی نصیحت مجھے سابق صدر اور آرمی چیف کے ساتھ جو ہورہا ہے اُس پر یاد آئی۔ مشرف صاحب ان دنوں بیمار ہیں، ایک اسپتال میں وہ کمزوری کی حالت میں بے بسی کی تصویر بنے کہہ رہے تھے ’’نہ میری شنوائی ہورہی ہے نہ میرے وکیل کی۔ غداری کا مقدمہ ایک طرف رکھیے میں نے دو جنگیں لڑی ہیں اور دس سال ملک کی خدمت کی ہے۔ مجھے اُمید ہے مجھے عدالت سے انصاف ملے گا‘‘۔ لگ نہیں رہا تھا کہ یہ وہ شخص ہے جو 12 اکتوبر 1999ء کو ٹی وی پر یہ کہہ رہا تھا۔ ’’Army has moved in‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ ملک کا سربراہ اور باوردی صدر بن گیا۔ نواز شریف کو طیارہ اغوا کیس بتا کر لانڈھی کراچی کے جیل میں ڈال دیا۔ ایسا لگا کہ سب نے اس کو پاکستان کا چیف ایگزیکٹو یا صدر مان لیا۔ بینظیر صاحبہ پہلے ہی باہر تھیں ایک معاہدے کے تحت نواز شریف بھی سعودی عرب چلے گئے۔ یہ شخص نو سال تک ملک پر حکمرانی کرتا رہا۔ خود کو طاقتور سمجھنے والا انسان کبھی پارلیمنٹ میں مکے لہراتا تو کبھی لاکھوں لوگوں کے جلسے میں وردی پہن کر مکے لہراتا۔ اور آج…
جب انسان اقتدار میں یا طاقت میں ہوتا ہے تو بہت سے لوگ اس کے دوست ہوتے ہیں۔ یہ فلسفہ پاکستان کا نہیں شاید پوری دنیا کا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو چلّا چلّا کر نعرے لگارہے ہوتے ہیں ’’مشرف تیرے جاں نثار بے شمار‘‘ مشکل وقت میں یہ بے شمار لوگ مڑ کر دیکھا جائے تو کم ہی نظر آتے ہیں۔ مشرف کی ہاں میں ہاں ملانے والے ، یس سر یس سر کہنے والے وزارت کے مزے لینے والے سب خاموش ہیں، صرف 3 لوگوں کے سوا۔میں یاد کراتا ہوں آپ بھی ذہن پر زور دیں۔ یہ ماضی کی جھلکیاں ہیں۔ میر ظفر اللہ خان جمالی، چودھری پرویز الٰہی، چودھری شجاعت حسین، لیفٹیننٹ جنرل (ر) مقبول حسین، جنرل (ر) عثمانی، جنرل (ر) محمود، شیخ رشید احمد، چودھری فواد حسین وغیرہ وغیرہ مشرف صاحب کے دوست تھے اور دایاں بازو بھی۔ یہ سب دوست خاموش ہیں ان کو سانپ نہیں بھالو سونگھ گیا ہے۔ (سوائے شیخ رشید احمد اور چودھری فواد کے۔ یہ دونوں ’’دوست‘‘ یہ کہتے نظر آئے بلکہ سنے گئے کہ مشرف کو میں نہ غدار سمجھتا ہوں اور نہ ہی کرپٹ)۔
آئیے ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے کی کوشش کریں مشرف کو ایک وزیراعظم کی تلاش تھی۔ مولانا فضل الرحمن اور میر ظفر اللہ خان جمالی دونوں پر انہوں نے ایک سرسری نظر ڈالی۔ جمالی صاحب کا ’’وزن‘‘ زیادہ نکلا۔ ان کو وزارتِ عظمیٰ دینے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ ہمیں یہ منظر یاد ہے۔ جمالی صاحب کو ایک دن ایوان صدر میں بلایا گیا، مشرف صاحب اپنے صدارتی محل کے ایک کمرے میں کھڑے تھے، جمالی صاحب ایک پرشکوہ کمرے میں داخل ہوئے، مشرف پر نظر پڑتے ہی ان کا ہاتھ فوراً پیشانی پر گیا، قریب آکر مشرف سے ہاتھ ملایا، اُس وقت ذہن میں ایک انڈین فلم کے گانے کا ایک بول یاد آیا۔ ہیروئن ہیرو سے کہہ رہی تھی۔ ’’آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے‘‘۔ شاید میر صاحب دل ہی دل میں کہہ رہے ہوں گے ’’آپ کی نظروں نے سمجھا وزارت عظمیٰ کے قابل مجھے‘‘۔ آج مشکل وقت میں ظفر اللہ بھی خاموش ہیں۔ ایک منظر یہ بھی یاد آتا ہے، مشرف صاحب اونچی اُڑان پر تھے، وہ نئے نئے کام انجام دینا چاہتے تھے، انہوں نے پاکستان میں Kacing Car کی دوڑ کرانے کا ارادہ کیا۔ یہ منصوبہ چودھری شجاعت حسین کو دیا گیا۔ جب اس منصوبے کا افتتاح ہورہا تھا مشرف نے اپنی تقریر میں چودھری شجاعت کی تعریف کی تو چودھری صاحب نے بے اختیار اپنا ہاتھ اپنی پیشانی پر لے گئے یہ سوچ کر کہ اتنے ’’بڑے آدمی‘‘ نے میری تعریف کی۔ عمران خان صاحب اکثر تقریبات میں اپنی تقریر کے دوران اپنے وزیروں کی تعریف کرتے ہیں مگر کوئی خوش ہو کر ان کو بیٹھے بیٹھے سلام نہیں کرتا ہے۔ آج چودھری شجاعت بھی خاموش ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی صاحب کو مشرف نے پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا رکھا تھا، ان کے کمرے یا آفس میں پرویز مشرف کی ایک تصویر لگی ہوئی تھی۔ سفید شیروانی میں مسکراتی ہوئی تصویر۔ یہ مشرف سے ان کی عقیدت کو ظاہر کرتی تھی۔ مگر یہ بھی آج خاموش ہیں۔ مشرف کے نامزد کردہ گورنر پنجاب جنرل مقبول حسین صاحب کو مشرف صاحب سے اتنی محنت تھی کہ وہ ان کو 10 سال تک باوردی صدر دیکھنا چاہتے تھے۔ مگر وہ بھی چپ ہیں۔ مشرف صاحب کے بے شمار جان نثار کہیں نظر نہیں آتے۔ جنہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ وہ خواہ تھوڑے ہی عرصے کے لیے پاکستان کے وزیراعظم بن جائیں گے، سب ہی اپنے محسن اور سابق صدر کی بے بسی پر آواز اُٹھانے پر تیار نظر نہیں آتے۔
آج ملک کا سیاسی منظرنامہ یہ ہے کہ ایک سابق وزیراعظم بلکہ 3 بار کا وزیراعظم اپنی بہت ساری بیماریوں کے علاج کے لیے انگلینڈ میں بادشاہوں کی طرح وی آئی پی علاج کروارہا ہے، ایک سابق صدر جو کبھی ایوانِ صدر کے پرشکوہ محل میں رہا کرتا تھا۔ عدالتوں اور اسپتالوں کے چکر لگارہا ہے، روز بروز کمزور ہوتا جارہا ہے، دوسری طرف ایک سابق صدر اور فوج کا سابق سپہ سالار دبئی کے اسپتال میں زیر علاج ہے۔ ان تینوں شخصیتوں کے لیے ایک پیغام ہے ماضی ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا۔ پیر پگاڑو صاحب کو جدید ترین ائرایمبولینس نہیں بچا سکی۔ بیگم کلثوم نواز کو برطانیہ کا جدید اسپتال زندگی نہ دے سکا۔ اب آپ لوگ اُس مالک کو یاد کریں جس کے قبضہ قدرت میں سب کچھ ہے۔ صحت بھی ہے اور عزت بھی جس کے آپ لوگ متلاشی ہیں۔ آپ لوگ ہوں یا آپ لوگوں جیسا بڑا یعنی وی آئی پی انسان آپ کو نہ امریکا کا اسپتال زندگی دے سکتا ہے نہ برطانیہ، دبئی یا جرمنی کا اسپتال، وہ ہستی جس کو بھلا کر آپ لوگ اپنی قوم پر حکمرانی کرتے رہے اس کو پکاریے اور ہر پل معافی کے طلب گار بنیے۔ اس ہستی نے معاف کردیا تو آپ کی کامیابی اس دنیا میں بھی ہے اور آخرت میں بھی۔