سعید الزّماں صدیقی مرحوم سابق چیف جسٹس پاکستان کی یاد گار تحریر
٭ میں تنظیم تحریکِ محصُورین مشرقی پاکستان کے اراکین کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے ایک انتہائی حساس انسانی اور اہم قومی مسئلے کو اپنے بے لوث جذبے اور انتھک کاوشوں سے آج تک زندہ رکھا ہوا ہے۔ محصورین مشرقی پاکستان کا مسئلہ پاکستان کے مشرقی بازوکی علیحدگی اور سرزمینِ مشرقی پاکستان پر بنگلہ دیش کے نام سے ایک نئی مملکت کے قیام کے ساتھ ہی وجود میں آیا۔ بنگلہ دیش میں اسوقت رہائش پذیر پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے اختیاری طور پر پاکستانی شہریت کو اسی طرح ترجیح دی جسطرح مغربی پاکستان میں رہنے والے مشرقی پاکستانیوں نے پاکستانی شہریت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور اس طرح وہ تمام لوگ جو اس وقت مشرقی یا مغربی پاکستان میں رہائش پذیز تھے اور انہوں نے اپنی پسند کے مطابق پاکستانی شہریت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا وہ ملکی اور بین الاقوامی قانون کی روسے پاکستانی شہریت کے حقدار بن گئے۔ اس وقت کی حکومت اور بعد میں آنے والی تمام حکومتوں نے مغربی پاکستان میں رہائش پذیر تمام مشرقی پاکستانیوں کو جنہوں نے پاکستانی شہریت اختیار کرنے کو ترجیح دی تھی پاکستانی شہری کی حیثیت سے قبول کیا مگر بدقسمتی سے مشرقی پاکستان میں پھنسے ہوئے وہ افراد جنہوں نے پاکستان کی سا لمیت اور اتحاد کے لئے ناقابل فراموش قربانیاں دیں اور پاکستانی شہریت اختیار کرنے کا حق استعمال کیا انکو انکے قانونی ، اخلاقی اور جائز حقِ شہریت سے آج تک محروم رکھا گیا اور انکی پاکستان واپسی کی راہ میں سیاسی مصلحتوں کی بنا پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔
سقوط ڈھاکا ہماری قومی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ سقوطِ ڈھاکا کے اسباب اور اس کے عوامل کے صحیح ادراک کے لئے ضروری ہے کہ ہم پہلے پاکستان کی سیاسی اور دستوری تاریخ کا ایک مختصر سا جائزہ لیں۔ پاکستان کی سیاسی اور دستوری تاریخ کسی بھی لحاظ سے قابل فخر یا قابل رشک نہیں ہے۔ پاکستان ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو وجود میں آنے کے ایک سال بعد ہی قیادت کے بحران سے دوچار ہوگیا جو71 سال گذرجانے کے بعد بھی آج تک جاری ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قیادت کا یہ بحران شدید سے شدید تر ہوگیا ہے۔ ۱۱ستمبر ۱۹۴۸ کو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کے نتیجے میں ملک اور قوم ایک ایسی قیادت سے محروم ہوگئی جو قومی وحدت کی علامت بھی اور جس پر پوری قوم کو اعتماد اور اعتبار تھا۔ قائداعظم کی وفات نوزائیدار یاست پاکستان کے لئے قومی سانحے سے کم نہ تھی مگر قائد کے معتمد خاص اور اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان جن کے کاندھوں پر قائد کی وفات کے بعد قیادت کی گراں قدرذمہ داری آن پڑی تھی اورانہوں نے انتہائی دیانت داری اور خوش اسلوبی سے اپنے فرائض منصبی کو نبھایا اور قومی یکجہتی کو برقرار رکھا اور اس طرح قائد کی وفات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے قیادت کے خلاء کو پر کرنے میں بڑی حد تک کامیاب رہے مگر پاکستان کی سول اور ملٹری بیوروکریسی نے جو قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی ملک کی سیا سی قیادت کے خلاف سازشوں میں سرگرم عمل تھی ایک گہری سازش کے تحت ۱۶ اکتوبر ۱۹۵۱ کو راولپنڈی کے ایک جلسہ عام کے دوران قائدملت لیاقت علی خان کو قتل کروادیا اور اس طرح قومی سطح کی آخری بااعتبار قیادت بھی ختم ہوگئی اور اس کے نتیجے میں ملک جس سیاسی افراتفری کا شکار ہوا وہ اب بھی جاری ہے اور ہماری قومی تاریخ کا حصہ ہے۔
قائداعظم کی وفات کے بعد خواجہ ناظم الدین کو جن کا تعلق اس وقت کے مشرقی پاکستان سے تھا اور جن کا شمار قائد کے قابل اعتماد ساتھیوں میں ہوتا تھا ملک کا گورنرجنرل مقرر کیا گیا لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک کا وزیرِاعظم اور غلام محمد جن کا تعلق سول بیورو کریسی سے تھا پاکستان کا گورنر جنرل مقرر کیا گیا اس وقت تک ملک کا انتظام گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ کے تحت ہی چل رہا تھا جسے ملک کے دستورکی حیثیت حاصل تھی کیونکہ اس وقت تک پاکستان کی دستور ساز اسمبلی ملک کے لئے ایک نیا دستور بنانے میں ناکام رہی تھی۔ غلام محمد نے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالنے کی کچھ ہی عرصہ بعد اپریل ۱۹۵۳ میں خواجہ ناظم الدین کو وزیراعظم کے عہدے سے برطرف کر دیااور ان کی جگہ سول بیوروکریسی کے ایک اور نمائندہ محمد علی بوگرہ کو وزیر اعظم نامزد کردیا حالانکہ اس وقت خواجہ ناظم الدین کو اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی ۔اور گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ کے تحت
جو اس وقت پاکستان کے دستور کے طور پر رائج تھا گورنر جنرل وزیراعظم کی ایڈوائس کا پابند تھا وہ ان کو برطرف کرنے کا اختیار نہیں رکھتا تھا۔ اس طرح ملک میں پہلی بار دستور سے انحراف کا راستہ اختیار کیا گیا کیونکہ اس سانحے نے قومی سیاست میں دستور سے انحراف کے ساتھ ساتھ نفاق کا بیج بھی بودیا جو آخرکار مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی شکل میں پیش آیا۔ خواجہ ناظم الدین کی غیرآئینی برطرفی کے خلاف قومی سطح پر کسی خاص رد عمل کا مظاہرہ نہ ہونے کے باعث غلام محمد کے حوصلے بلند ہوگئے اور اس واقعہ کے کچھ ہی عرصے کے بعد ۲۴ اکتوبر ۱۹۵۴ کو اس نے دستور ساز اسمبلی کو بھی توڑ دیا جس کے سربراہ ایک اور مشرقی پاکستانی تمیزالدین خان تھے ۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ دوسرا بڑا دستوری انحراف تھا۔ حکومتی سطح پر گورنر جنرل کے اس اقدام کے خلاف عدالتی چارہ جوئی سے بازرکھنے کیلئے اختیار کئے گئے مختلف اقدامات کے باوجود تمیزالدین خان نے گورنر جنرل کے اقدام کو اس وقت کے سندھ چیف کورٹ کے سامنے ایک رٹ پٹیشن کے ذریعہ چیلنج کردیا۔سندھ چیف کورٹ نے اپنے ایک تاریخ ساز فیصلہ کے ذریعہ گورنرجنرل کے اقدام کو غیر آئینی قرار دے دیامگر اس وقت کے فیڈرل کورٹ نے جس کے سربراہ جسٹس منیر تھے چیف کورٹ کے فیصلے کو اس بنا پر کالعدم کردیا کہ جس قانون کے تحت سندھ چیف کورٹ نے گورنر جنرل کے خلاف رٹ کا اجراء کیا تھا اس قانون کی منظوری گورنر جنرل سے حاصل نہیں کی گئی تھی اس لئے وہ قانون قابل عمل نہیں تھا۔ فیڈرل کورٹ کے اس فیصلے نے ملک میں ایک نئے دستوری بحران کو جنم دیا کیوں کہ ۱۹۴۷ میں پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے اور تمیزالدین خان کے کیس کے فیصلے کی تاریخ کے درمیان اسمبلی میں جتنی قانون سازی کی گئی تھی اس کی منظوری گورنر جنرل سے حاصل نہیں کی گئی تھی اور اس طرح وہ تمام قوانین فیڈرل کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں ناقابل عمل ہوگئے۔ اس صورت حال سے عہدہ برا ہونے کے لئے گورنر جنرل نے ایک نئے آرڈیننس کا اجراء کیا جس کی رو سے ان تمام قوانین کو جن کو گورنر جنرل کی منظوری کے لئے پیش نہیں کیا گیا تھا پچھلی تاریخوں سے گورنر جنرل کی منظوری کا حامل قراردے دیا گیا ۔ مگر اس قانون کو فیڈرل کورٹ نے یوسف پٹیل بنام سرکار کے کیس میں یہ کہہ کر رد کردیا کہ گورنر جنرل گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ کے تحت اس طرح کی قانون سازی کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ اس مشکل صورت حال سے نمٹنے کے لئے گورنر جنرل نے فیڈرل کورٹ سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے ایک ریفرنس داخل کیا جس میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے پہلی بار نظریہء ضرورت (State Necessity) کا اصول وضح کرکے یہ فیصلہ دیا کہ ایسے تمام قوانین جن کی گورنر جنرل سے منظوری حاصل نہیں کی گئی تھی اس وقت تک ملک میں نافذالعمل رہیں گے جب تک ملک میں ایک نئی دستور ساز اسمبلی کا قیام عمل میں نہیں آجاتا اور آنے والی اسمبلی ان قوانین کا جائزہ لیکر انہیں منظوری یا رد نہیں کردیتی۔ ساتھ ہی فیڈرل کورٹ نے نئی دستور ساز اسمبلی کی تشکیل کی سفارش بھی کردی۔ فیڈرل کورٹ کے حکم کے نتیجے میں وجود میں آنے والی نئی دستور ساز اسمبلی نے ۱۹۵۶ کا متفقہ دستور قوم کے سامنے پیش کیا جو ۲۳مارچ ۱۹۵۶ کو ملک میں نافذ ہوگیا ۔
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ۱۹۵۶ کا آئین مغربی اور مشرقی پاکستان کے مابین مساوی حقوق (Parity) کی بنیاد پر بنایا گیا تھا جبکہ اس وقت مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی۔ دراصل پیرٹی کے اصول کو تسلیم کرکے مشرقی پاکستان نے ایک طرح ملکی یکجہتی اور سا لمیت کے خاطر قربانی دی مگر بدقسمتی سے ۱۹۵۶ کے متفقہ دستور کے نفاد کے باوجود ملک میں سیاسی استحکام پیدا نہ ہوسکا اور دو سال کے قلیل عرصہ میں کئی حکومتیں تبدیل ہوئیں ۔ ملک میں غیر مستحکم سیاسی صورت حال کو بنیاد بنا کر اس وقت کے صدرا سکند ر مرزا نے ۱۷ اکتوبر ۱۹۵۷ کو ۱۹۵۶ کے دستور کو ختم کرکے ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کا اعلان کر دیا اور فوج کے کمانڈرانچیف ایوب خان کو ملک کا انتظام سونپ دیا۔ اس طرح ملک میں پہلی بار ایک غیر آئینی حکومت کا قیام عمل میں آیا جسے سپریم کورٹ نے ڈوسوکیس میں کامیاب فوجی انقلاب کا نام دیکر جائز قرار دے دیا اور اس طرح ملک میں فوجی انقلاب کے ذریعہ منتخب حکومتوں کا تختہ الٹنے اور فوجی حکومتوں کے قیام کی قانونی راہ ہموار ہوگئی۔
تمیز الدین خان اور ڈوسو کیس میں دیئے گئے عوام فیصلے اور قانوندانوں کی انجمنوں میں کبھی بھی پذیرائی حاصل نہ کر سکے ہمیشہ سخت تنقید کا نشانہ بنے رہے اور آخر کار سپریم کورٹ نے ۱۹۷۲ میں اسماء جیلانی کیس میں ان دونوں فیصلوں کو غلط قرار دے دیا۔
۱۹۵۶ کا متفقہ دستور پارلیمانی جمہوریت کی اساس پر بنا تھا۔ ۱۹۵۷ کے فوجی انقلاب کے بعد اس دستور کو ختم کرکے ملک میں ایک فرد
واحدکا بنایا ہوا ۱۹۶۲ کا صدارتی طرز کا دستور ملک میں نافذ کر دیا گیا۔ مگر یہ دستور ۱۹۶۹ میں فوجی حکمران فیلڈ مارشل ایوب خان کے رخصت ہوتے ہی ختم ہوگیا اورنئے آنے والے فوجی حکمران جنرل یحیٰی خان نے اس کی جگہ Legal Framework Order (LFO) نافذ کرکے ملکی انتظام سنبھال لیا اور ۱۹۷۰ میں ملک میں پہلی بار بالغ رائے دہی کی بنیاد پر مغربی پاکستان میں ون یونٹ کو توڑ کر روایتی صوبے پنجاب ، سندھ، فرنٹیئر اور بلوچستان کو بحال کر کے عام انتخابات کا اعلان کر دیا۔ ۱۹۷۰ کے انتخابات کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ انتخابات صاف اور شفاف طریقے سے منعقد کئے گئے تھے مگر اس وقت کے فوجی حکمرانوں نے عام انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی اسمبلیوں کو اقتدار منتقل کرنے کے بجائے مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کا غیر منطقی فیصلہ کیا جس کے نتیجہ میں مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک زورپکڑ گئی اور آخرکار ملک کے مشرقی بازو میں بنگلہ دیش کے نام سے ایک نئی جمہوری مملکت وجود میں آگئی اور وہاں موجود نوے ہزار پاکستانی فوجیوں نے ہندوستان کی جارح فوج کے سامنے ذلت کے ساتھ ہتھیار ڈال دیئے۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں جن عوامل نے اہم کردار ادا کیا ان میں چھوٹے صوبوں میں شدید احساس محرومی ، مغربی پاکستان کے اکثریتی صوبے کے لوگوں کا مشرقی پاکستانیوں کے ساتھ نارواسلوک، ملک میں جمہوری اداروں کا فقدان اور ملک کے سیاسی نظام میں باربار کی فوجی مداخلت جس نے وفاق کی سطح پر مشرقی پاکستانیوں میں مساوی حقوق کی پامالی کے احساس کوشدید تر بنا دیا تھاجن میں سے چند ایک یہ ہیں ۔ یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہئیے کہ پاکستان ایک وفاق کی صورت میں جمہوری عمل کے ذریعے وجود میں آیا ۔ اس لئے اس کی بقا بھی جمہوری روایت پر کاربندہوکر ہی ممکن ہے۔ وفاق کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ وفاق میں شامل تمام اکائیوں میں یہ احساس ہمیشہ زندہ رہے کہ وفاق کے انتظامی معاملات میں وہ برابر کے شریک ہیں ۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں وہاں کے عوام میں ان احساسات کی عدم موجودگی نے بڑا کردار ادا کیا ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے ہمارے حکمرانوں نے کوئی سبق نہیں لیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ہم نے مغربی پاکستان کے باقی چار صوبوں کو پاکستان کا نام تو دے دیا اور اس کے نظم و نسق کو چلانے کے لئے ایک متفقہ دستور بھی بنا لیا مگر اس دستور پر عمل پیرا ہونے میں ہم بری طرح ناکام رہے ہیں۔ ماضی کی طرح آج بھی جمہوری ادارے ملک میں ناپید ہیں اور سیاسی معاملات میں فوجی مداخلت بھی ماضی کی طرح جاری ہے۔
ملک کے مقتدرادا رے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ عدلیہ جو ملک کے آئین کی بقا اور تحفظ کی ذمہ دار ہے اور ملک کے مختلف اداروں کے درمیان توازن قائم رکھنے کا کردار ادا کرتی ہے حالیہ حکومتی ا قدام سے بری طرح متاثر ہوئی ہے اور اس کی موجودہ کارکردگی حکومتی اقدام سے بری طرح متاثر ہے اور ملک بھر کی وکلاء تنظیموںکا حکومتی اقدام کے خلاف ملک بھر میں شدید احتجاج جاری ہے، وفاق اور صوبوں کے درمیان اختلافات اپنے عروج پر ہیں ایک صوبے میں حکومتی حلقوں کے مطابق علیحدگی پسند متحر ک ہوگئے ہیں، حکومت سیاسی اور اختلافی معاملات کو گفت و شنید کے بجائے طاقت کے ذریعے حل کرنے کو ترجیح دے رہی ہے جس کے نتائج ملک کی بقا کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ محصورین مشرقی پاکستان جن مسائل سے آج تک دوچار ہیں اس کی ذمہ داری ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے جن کی بے حسی ، بے اصولی کی سیاست اور پاکستانی باشندوں کے حقوق کے بارے میں غیر منصفانہ موقف نے اس انسانی مسئلے کی راہ میں بے شمار رکاوٹیں پیدا کر دی ہیں۔ اگر ہم نے ملکی معاملات کو سدھارنے کے لئے فوری اقدام نہیں کئے تو وقت ہمارا انتظار نہیں کرے گا اور شاید تاریخ بھی ہمیں معاف نہیں کرے۔ تاریخ اپنے اندر بے شمار سبق رکھتی ہے مگر ان کے لئے جو اس کا مطالعہ کرتے ہیں اس سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب ملک اور قومیں تاریخ سے سبق حاصل کرنا بھول جاتی ہیں تو بسا اوقات ان کے جغرافیے بھی تبدیل ہوجاتے ہیں۔ کیا ہم ایک بار پھر پرانی تاریخ دہرانا چاہتے ہیں؟ خدا کر ے ایسا نہ ہو۔ پاکستان پائندہ باد۔
نوٹ : صاحبِ مضمون سعید الزمان صدیقی (مرحوم)نے چند سال قبل تحریکِ محصورین مشرقی پاکستان کے زیرِ اہتمام منعقدہ سیمینارمیں پڑھا۔