بلقیس اسلام
٭ حصول ِوطن کی تحریکیں حصولِ مقصد تک زندہ رہتی ہیں۔ ریاستی ظلم و جبر ہو یا اپنوں کی ریشہ دوانیاں، سازشیں لاکھ کی جائیں مٹانے کی، ہزاروں حربے ہوں، تحریک مٹ کر بھی نہیں مٹتی۔ ہم نے تو یہی دیکھا ہے ایسی تحریکیں راکھ بن کر بھی چنگاری کو اپنی آغوش میں چھپائے رکھتی ہیں جبکہ ہوا کا ایک معمولی سا جھونکا اسے شعلہ بنادیتی ہے۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک ہو یا فلسطین کی تحریکِ آزادی، وقت کی قیدمیں نہیں ہوتیں، وقت سالوں پر محیط ہو یا صدیوں تک، زندہ قوموں کے عزائم سرد نہیں ہوتے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے عزائم میں پختگی اور ارادہ مصمم ہوجاتا ہے۔ بنگلہ دیش کے کیمپوں میں تین لاکھ سے زائد محصور پاکستانی حصولِ وطن کی چاہ میں کیمپوں میں اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں اور انسانیت سوز مظالم و مصائب برداشت کررہے ہیں۔ 48 سال سے پاکستان آنے کی جدوجہد اور پاکستان سے محبت کا علم تھامے ہوئے ہیں۔ محصورین بنگلہ دیش 23 مارچ کو یومِ پاکستان کی تقریب ہو یا 14 اگست کو جشنِ آزادی، ہر سال اپنی بدترین پناہ گاہوں میں پاکستانی پرچم بے خوف و خطر لگاکر مناتے ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ وطن سے محبت اس طرح کی جاتی ہے اور وطن سے محبت اس کو کہتے ہیں۔ جذبات کا یہ اظہار ایک ایسے ملک میں جہاں پاکستانی کہلانا ظلم و نفرت کی علامت ہو، جہاں پاکستانیوں کو عبرت کا نشان بنادیا گیا ہو، وہاں پاکستان سے دیوانہ وار محبت یہ بتاتا ہے کہ 48 سال گزرنے کے باوجود جن کی دو نسلیں بدل چکی ہوں، پاکستان سے محبت اور اس کی جستجو ایسی ہی ہے کہ پاکستان ان کے خون میں سرایت کرگیا ہے اور یہ مصیبتیں کتنی ہی نسلوں میں منتقل کیوں نہ ہوجائیں، پاکستان پوری آب و تاب سے ان کے دل میں رہے گا۔ لواحقین محصورین بنگلہ دیش جب شملہ معاہدے کے تحت منقسم خاندانوں کے زمرے میں پاکستان آرہے تھے تو محصورین بنگلہ دیش نے ہمیں الوداع کہتے ہوئے ایک سوال کیا تھا کہ آپ تو پاکستان جارہے ہیں ، ہمارا کیا ہوگا؟ تو ہم نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ ہم پاکستان جاکر آپ کو پاکستان لانے کی جدوجہد کریں گے۔ یقینا ہم سب نے اپنا وعدہ پورا کیا اور نتیجے میں محصورین کی کچھ تعداد کو لایابھی گیا پھر ہم نے اپنی جدوجہد اور اس تحریک کو جلد موثر اور زور آور بنانے کے لئے قریب ترین ہمدردوں کے کھوکھلے نعروں میں آکر اسے اپنا سہارا بنالیا، سہارا ہی نہیں بلکہ رفتہ رفتہ اپنی پوری قوت سونپ کر ان پر انحصار کر بیٹھے۔ افسوس ہم لفظی ہمدردی کے بہلاوے میں آگئے۔ عملاً ایک دن ایک پہر ایسا نہیں جو انہوں نے اظہار کیا ہو، ہڑتالیں ہوتی رہی ہیں، دیگر مسائل پر ایوانوں میں صدائیں بلندہوتی رہیں لیکن لاکھوں محب وطن بنگلہ دیش کے کیمپوں میںبدترین گزار رہے ہیں انہیں وطن لانے کے لئے نہ تو ایوانوں میںجار ی ہے۔
اور نہ ہی ہڑتالوں کے ذریعے عملاً مظاہرہ کیا گیا۔ ہم نے انتہائی نیک نیتی سے مکمل اختیار کے ساتھ انہیں بااختیار بنایا اور خود بے اختیار ہوگئے لیکن انہوں نے اس انسانی، قانونی، اخلاقی و پاکستانی مسئلے کو سیاست کی بھینٹ چڑھادیا۔ اس مسئلے کا سیاسی سودا ہوا اور ہمارے ساتھ انتہائی گھنائونی سازشیںہوئیں، یقینا ہم ان سازشوں کا شکار ہوئے۔ دراصل ہم محب وطن ہیں ہماری حب الوطنی ضرب مثل رہی ہے۔ ہم نے متحدہ پاکستان کی جدوجہد میں قربانیوں کی ایک ایسی داستان رقم کی ہے کہ اگر کوئی منصف ہوتا تو یقینا شہدائے مشرقی پاکستان کو اجتماعی طور پر نشانِ حیدر کے اعزاز سے سرفراز کرتا۔ اگرچہ ہم وہ لوگ ہیں جو پاکستانی افواج کو اسلام کے سپاہی کہتے ہیں اور افواج ِ پاکستان اور پاکستان کی سا لمیت کو لازم و ملزوم قرار دیتے ہیں ہمارے اس نظریے اور کردار کو مشکوک بنانے کا مقصد پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے۔
صد افسوس کہ افواج پاکستان بااختیار ہوتے ہوئے بھی انتہائی اہم پاکستانی مسئلے کو حل کرنے میں کیوں تاحال سرد مہری برت رہی ہیں۔ یقینا یہ ایک لمحۂِ فکر ہے۔ یقین کریں ہم فریب میں ضرور آئے، راہوں سے بھٹکائے گئے، منزل سے دور بھی ہوئے لیکن ہم محب وطن ہیں ،محب وطن تھے اور کبھی بھی وطن پاک کو ہماری ضرورت پڑی تو خون کا آخری قطرہ بہانے سے دریغ نہیں کریں گے۔ ہمارے خلاف سازش اس لئے ہے کہ ہم پاکستان دشمن قوتوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ جذبۂ ِ حب الوطنی کا تقاضا تو یہ ہے کہ محب وطن پاکستانیوں کی سا لمیت کو دیارِ غیر میں بے یار و مددگار نہ چھوڑا جائے بلکہ انہیں پاکستان لانے کی سبیل کی جائے۔
محصورین محب وطن پاکستانیوں کو پاکستان لانا پاکستان کی یکجہتی، بقاء و سا لمیت سے تجدید ِ عہدِ وفا ہے کہ ہم سب پاکستانی ہیں اور جب کبھی پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تو ہم سربکف اور سینہ سپر ہوں گے۔ ہم سازشوں کے سبب راہوں سے بھٹکے ضرور ہیں لیکن منزل ہمارے پیشِ نظر ہے۔
اس عزم و حوصلے کے ساتھ کہ بنگلہ دیش کے 70 کیمپوں میں محصور محب وطن پاکستانیوں کو پاکستان لایا جائیگا 16 دسمبر کو مقامِ عبرت کے طور پر منایا جائے تاکہ ہماری کوتاہیوں کی اصلاح ہوتی رہے۔ ہم آپس میں دست و گریبان نہیں لیکن پھر بھی یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم لواحقین بنگلہ دیش اتنی بڑی تعداد میں یہاں جمع ہیں۔ تحریک محصورین جس مقصد کے لئے کوشاں ہے وہ سچائی اور حقیقت پر مبنی خالصتاً پاکستانی تحریک ہے۔