شیخ محمد انور (ریلویز)
آج پوری قوم بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا 143واں یوم ولادت منارہی ہے۔ یہ بھی حُسنِ اتفاق ہے کہ راقم الحروف کا یوم ولادت بھی 25 دسمبر ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح 25 دسمبر 1876ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدِ محترم کاروبار سے منسلک تھے اور اُن کی صرف ایک ہی خواہش تھی کہ اُن کا بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کرے۔ ابتداء میں ایک عام سے مدرسے میں داخل کروایا جہاں تعلیم حاصل کی۔ نہ تو اُس مدرسے والوں کو علم تھا اور نہ ہی والدِ محترم کو کہ آگے چل کر اُن کا بیٹا کیا بننے والا ہے؟ جو کہ تاریخ کا رُخ بدلے گا اور برصغیر کے مسلمانوں کا نجات دہندہ بنے گا۔ اس کا کسی کو گمان تک نہ تھاقائد اعظم کا بچپن اور لڑکپن، آسودگی اور آسائش سے ناآشنا رہا لیکن دیانت، امانت اور ذہانت کی قدردانی کے ماحول میں گزرا۔ ان کے ذہن میں کیا خیال آتے تھے اپنے گردوپیش کے بارے میں کیا سوچتے تھے اس کا اندازہ کرنا ان کے لیے جنہوں نے اسی طرح کے ماحول میں اپنا بچپن اور لڑکپن گزارا، مشکل نہیں۔ یہاں تعلیم مکمل کرچکے تو والدِ محترم نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلستان بھجوادیا۔ غیر ملک میں وسائل کی کمی کے باوجود رہائش اور تعلیم حاصل کرنا آسان نہ تھا لیکن قائد اعظم کچھ بننے کا جذبہ لے کر نکلے تھے۔ اگر پختہ ارادہ اور سچا جذبہ ہو تو ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ قائد اعظم بیرسٹر بن کر لوٹے اور کچھ ہی عرصہ میں قانون دانوں کی صف میں اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ شروع میں اُن کا ذریعہ معاش وکالت تھا اور ایک ہی مقصد تھا کہ انگریز ہندوستان سے جائیں اور یہاں کے لوگوں کا اپنا ایک الگ آزاد اور خود مختار ملک ہو اور یہاں کے بسنے والے لوگ اپنا حال اور مستقبل سنوارنے میں خود مختار ہوں۔ ابتداء میں کچھ عرصہ ہندوئوں اور مسلمانوں کی متحدہ رہنمائی کرتے رہے اور آزادی کے حق میں لڑتے رہے۔ مگر جلد ہی اُنہیں اس حقیقت کا احساس ہوگیا کہ انگریزوں سے آزادی حاصل کربھی لی تو ہندو اپنی اکثریت کی بناء پر غلبہ وتسلط حاصل کرلیں گے۔ اس صورت میں مسلمان صرف نام کے ہی آزاد ہوں گے اور ان کی آنے والی نسلوں کی زندگی ہندوئوں کی غلامی میں کٹے گی اور ان کا دینی، تہذیبی اور تمدنی تشخص بھی برقرار نہ رہ سکے گا۔ وہ دوسرے درجے کے شہری ہوں گے جن کا کوئی مستقبل نہ ہوگا اور جن پر ترقی کے سبھی دروازے بند رہیں گے۔ اس لیے اگر مسلمانوں کی دینی، تہذیبی اور تمدنی بقاء مقصود ہے تو پھر انہیں متحدہ ہندوستان نہیں بلکہ پاکستان کی آزاد اور خود مختار مملکت کی صورت میں آزادی ملنی چاہیے۔ جس پر ان کا مکمل اختیار ہو اور جہاں وہ اپنی دینی اور تہذیبی روایات کے مطابق زندگی بسرکرسکیں۔ اعظم محمد علی جناح کی سیرت میں ہمیں بہت سے پہلو ایسے ملتے ہیں کہ ان کو اگر ہم مشعل راہ بنالیں تو نہ صرف ہماری اپنی زندگی باوقار انداز میں گزر سکتی ہے بلکہ ملک وقوم سے محبت اور اس کے لیے کچھ کرگزرنے کا جذبہ ہمارے دلوں میں پیدا ہوسکتا ہے۔ قائد اعظم کی زندگی ایسے ان گنت واقعات سے بھری پڑی ہے جس سے ان کی اصول پسندی کے ساتھ ساتھ وقت کی پابندی اُن کی نظروں میں بڑی اہمیت رکھتی تھی۔نئی نسل کے لیے سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ وہ اس عظم تاریخی پس منظر کا صحیح ادراک کرے جس کے نتیجے میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ برصغیر میں مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ دور اقتدار کے بعد مسلمانوں کو برطانوی ملوکیت اور
ہندوفرقہ پرستی کی متحدہ قوت کا مقابلہ کرنا پڑا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز قیام پاکستان کی خواہش اور ہندوراج کی شدید مخالفت تھی۔ وہ ہندو تہذیب و تمدن کے عناصر ترکیبی سے بخوبی آگاہ ہونے کی وجہ سے اس کے سخت مخالف اور قیام پاکستان کے زبردست حامی تھے۔ یہی دونوں پہلو اِن کی سیاسی جدوجہد کے نمایاں ترین اوصاف خیال کیے جاتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی انتھک کوشش اور ان کی زیرقیادت برصغیر کے تمام مسلمانوں کی متحد قوت کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا۔ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیاتھا اور مسلمانوں کے لیے بنا تھا۔ اسلامی اصول اور قوانین کے نفاذ کے لیے وجود میں آیا تھا۔ قائد اعظم نے جس وحدت ملی کا خواب دیکھا اور قوم کو مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد کرکے اسلامی تصورات کے مطابق تربیت دے کر روشن تعبیر زندہ و بیدار حقیقت پاکستان کی صورت میں پیش کردی۔ وہ کوئی نیا نعرہ یا عارضی سبق نہ تھا جسے کسی عصری ضرورت کے لیے فراموش کیا۔ قائد اعظم نے خدا کی حقیقت کو بار بار واضح کیا اور افراد ملت کو سمجھایا کہ ہمارا کلمہ ایک۔ رسول ایک۔ قرآن ایک۔ خدا ایک۔ پھر کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ہم ایک ہو کر اپنے ملک کے استحکام اور مذہب کی اشاعت اور ملت کی خوشحالی و سربلندی کے لیے کوشاں نہ ہوں۔ اگر آج بھی ہم ملکی اتحاد و تعاون اور صحیح اسلامی جوش و خروش سے کام کریں تو اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان جلد ہی عظیم ترین ممالک میں شمار ہونے لگے گا۔ وطن کی تعمیرواستحکام کے لیے تحریک پاکستان جیسے عزم و اتحاد کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرار داد لاہور نے برصغیر کی تاریخ کا رُخ بدل دیا۔ بلاشبہ اتحاد اور تنظیم کی بدولت
مسلمانوں نے دو طاقتور دشمنوں ہندو اور فرنگیوں کو شکست دے دی۔ پاکستان کا قیام کسی ایک فرد یا کسی ایک طبقہ کی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ پوری قوم نے قائد اعظم کے ساتھ مل کر اُن کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے تن، من، دھن کی قربانی دی جس کے نتیجے میں آزادی کا سورج دیکھنا نصیب ہوا۔ مسلمانانِ برصغیر کو آزادی کی جو قیمت ادا کرنی پڑی وہ ساری دنیا جانتی ہے۔ مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگائی گئی، ان کی بہنوں اور بیٹیوں کو اغواء کیا گیا پھر بھی مسلمانوں نے ہمت نہ ہاری۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان بننے پر جتنی شہادتیں مرد،خواتین اور بچوں کی ہوئی اور جتنا خون امرتسر سے لے کر واہگہ بارڈر تک بہا اس کی مثال دنیا میں نہیں مل سکتی۔ ہندو بنیے نے لاشوں کی ٹرینیں بھر کر پاکستان کی طرف روانہ کیں۔ اُنہوں نے مسلمان بچوں کی لاشوں کو درختوں سے لٹکادیا۔ اتنا کچھ ہو جانے کے باوجود ان کے حوصلے پست نہ ہوئے اور آزادی کی خاطر گھر بار چھوڑ کر بالکل بے سروسامان ایک نئے ملک کی طرف بڑھے اور نئے حوصلے اور ولولے کے ساتھ اپنی نئی زندگی کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد اپنی آزادی کے تحفظ اور بقاء کے لیے مسلمانوں کو مزید آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ پاکستان کی داستان وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے پاکستان کو بنتے ہوئے دیکھا۔ افسوس کہ آج کا نوجوان نہ تو تاریخ پڑھتا ہے اور نہ ہی علامہ اقبال اور قائد اعظم کے بارے میں پڑھنے کا ان کے پاس وقت موجود ہے۔ اپنا تمام وقت فیس بُک، وائٹس ایپ اور ٹوئٹر جیسے بے مقصد کاموں میں گزار دیتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ تعلیمی نصاب میں قائد اعظم، علامہ اقبال اور حریت پسند مسلمانوں کی تاریخ کو لازمی حصہ بنائیں۔ 11 ستمبر 1948ء کو آپ خالق حقیقی سے جاملے۔ لیکن ان کا کام ان کے افکار زندہ ہیں ان پر عمل کی ضرورت ہے۔